پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پھر اضافہ کر دیا گیا۔ پیٹرول کی قیمت بائیس روپے سے زائد اضافے سے دو سو بہتر روپے ہوگئی اسی طرح باقی پٹرولیم مصنوعات بھی بڑھیں ہیں جبکہ چند روز میں اس کی قیمتیں تین سوروپے لیٹر یا اس سے زیادہ بڑھنے کا امکان ہے۔ اسی طرح گیس سمیت بہت سی اشیا پر بھی ٹیکس لگائے گئے جس سے مہنگائی کا نیا طوفان عوام کو مسائل کے سمندر میں غرق کر دے گا۔ پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیوں ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کے لیے معطل پروگرام کی بحالی کے لیے یہ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ جس سے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ اب اس مہنگائی کا جواب حکمرانوں سے مانگا جاتا ہے تو وہ ملبہ سابق حکومت پر ڈالتے ہیں۔ کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں جو حکومت آتی ہے آئی ایم ایف سے قرضے لینے کے لیے لائن میں لگ جاتی ہے تاکہ اپنے پانچ سال پورے کر سکے۔ کسی حکومت کی طرف سے ایسے سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے جاتے کہ بیرونی قرضوں پر انحصار کم سے کم ہو، سستی بجلی پیدا کی جائے، سستی گیس کا انتظام کیا جائے۔ خام مال کی پیداوار میں اضافے کے ذریعے ملک میں انڈسٹری کو آگے بڑھایا جائے تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔ جو اناج، سبزیاں پھل امپورٹ ہو رہے ہیں ان کی لوکل پیداوار میں اضافہ کیا جائے، کسانوں کو سہولت دی جائے۔ کسان اور صارف کے درمیان قیمتیں بڑھانے والے ذخیرہ اندوزوں کا سدِ باب کیا جائے۔ حکومت کی طرف سے اشیا کی طے ہونے والی قیمتوں پر عمل درآمد کروایا جائے تاکہ سبزی، دالیں لوگوں کی دسترس میں رہیں۔ حکومت کی رٹ کہیں نظر نہیں آرہی۔ ریاست نجی شعبہ میں موجود مافیاز سے بلیک میل ہوتی رہتی ہے۔ یہی طبقہ ہے جو ہر حکومت میں بھی شامل رہتا ہے جو مہنگائی بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ملازمت کرنے والے کی تنخواہ میں سالانہ اضافہ دس سے پندہ فیصد تک اضافہ ہوتا ہے لیکن مہنگائی دو سو فیصد تک بڑھی ہے۔ ٹیکسسز میں اضافہ سے جو مہنگائی ہو رہی وہ تو ہو ہی رہی ہے تاہم انڈسٹری مالکان اور دکانداروں کی طرف سے مہنگی سپلائی آنے کا بہانہ کر کے خود سے ہی روزمرہ ضرورت کی اشیا میں اضافہ کر دیا جاتا ہے جو مہنگائی کی رفتار مزید بڑھا دیتی ہے۔
حکومت کی طرف سے کفایت شعاری کے لیے اٹھائے گئے چند اقدامات اچھے ہیں تاہم یہ کافی نہیں ہیں،اگر ملک میں معاشی استحکام نہیں ہوگا تو معاشرہ انتشار کی جانب جائے گا اور ہم بیرونی و اندرونی خطرات سے بھی نہیں نمٹ سکیں گے۔ اسی طرح ٹیکس لاگو کرنے کے لیے بہتر انتظام کرنا ہوگا، تنخواہ داروں پر بوجھ ڈالنے کی بجائے ٹیکس نیٹ سے باہر کاروباری طبقہ کو شامل کیا جائے۔ ریاست کو مہنگائی کنٹرول کرنے، ذخیرہ اندوزوں کا سدباب کرنے اور مزدور کو اس کا حق دلوانے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ تباہی کو اس ملک کا مقدر بننے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔