وفاقی حکومت بتائے کہ نیب قانون کی کونسی شقیں ختم نہیں کی گئیں؟ چیف جسٹس

بدھ 30 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نیب ترامیم کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں چیف جسٹس کو ربڑ اسٹیمپ بنا دیا گیا ہے۔

 نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بھی بینچ کا حصہ تھے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث اور وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت شروع ہونے پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ گڈ ٹو سی یو اٹارنی جنرل صاحب اور استفسار کیا کہ ہم نے انتظار کیاکہ پارلیمینٹ کچھ کرے گی۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ مجھ سے منسوب کیا گیا کہ آپ نے تسلیم کیا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں نقائص ہیں، اٹارنی جنرل نے 8 جون کا آرڈر پڑھ کر سنایا اور کہاکہ  میں نے لفظ نقائص نہیں اوور لیپنگ استعمال کیا تھا، لیکن رپورٹنگ کچھ اور ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں

چیف جسٹس نے پھر استفسار کیاکہ میرے پاس سارے اخبارات کی کلپنگ موجود ہیں، ڈان میں ناصر اقبال، دی نیوز میں مریم نواز جبکہ ایکسپریس ٹریبیون میں حسنات ملک لکھتے ہیں۔ لیکن اس خبر کے ساتھ کسی کی بائی لائن نہیں تھی۔ پتہ نہیں کیوں میرے حوالے سے سنسر شپ کر رہے ہیں۔

مکالمے کے دوان چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے دیکھا اگست میں پارلیمنٹ قانون سازی کے لیے بہت متحرک رہی، پریکٹس اینڈ پروسیجر اور ری ویو ایکٹ پر نظرثانی ترجیحات میں نہیں تھی۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ پارليمان ری ویو ایکٹ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی منتظر تھی۔

چیف جسٹس نے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب ہم آپ کی وضاحت کو تسلیم کرتے ہیں، اٹارنی جنرل صاحب آپ کی ہر بات مانیں گے مگر یہ بات تسلیم نہیں کریں گے۔

نئے نیب قانون سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست طلب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نیب ترمیم کے بعد کتنے کیسز عدالتوں سے واپس ہوئے فہرست فراہم کی جائے۔ ایک فہرست نیب جمع کرا چکا ہے لیکن اسے مزید اپڈیٹ کر کے دوبارہ جمع کرایا جائے۔

چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کے وکیل سے دریافت کیا کہ نئے نیب قانون میں کون سی ایسی پرانی شقیں ہیں جنہیں ختم نہیں کیا گیا، نئے نیب قانون میں کئی اچھی چیزیں بھی ہیں، نیب قانون کی وجہ سے کئی لوگوں نے بغیر جرم جیلیں کاٹیں، ہم نے دیکھنا ہے کہ نئے نیب قانون سے کس کس نے فائدہ اٹھایا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نیب کا استعمال سیاسی مقاصد کے کیے کیا جاتا رہا ہے، اس چیز کو روکنا چاہئے کہ کوئی انتقامی کاروائی نہ کرے۔ ہمیں اس بات پر فوکس رکھنا ہو گا کہ نیب ترمیم کا ٹارگٹ کون ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ کا موقف تھاکہ ہم اس مقدمے میں بہت زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں، اس کیس میں کوئی سیاسی جماعت، مالیاتی ادارہ ہمارے سامنے فریق نہیں ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ احتساب جمہوریت کی بنیاد ہوتا ہے۔ انتخابات اور ووٹ بھی حکومت اور ارکان پارلیمنٹ کے احتساب کا ایک طریقہ کار ہے، نیب ترامیم سے کئی جرائم کو ختم کیا گیا کچھ کی حیثیت تبدیل کی گئی، نیب ترامیم سے کچھ جرائم کو ثابت کرنا ہی انتہائی مشکل بنا دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس کے مطابق کم سے کم حد پچاس کروڑ کرنے سے کئی مقدمات نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کیے گئے، نیب ایک ہی ملزم پر کئی مقدمات بنا لیتا ہے جن میں سینکڑوں گواہان ہوتے ہیں، سینکڑوں گواہان کی وجہ سے نیب مقدمہ کئی کئی سال چلتے رہتے ہیں، اصل چیز کرپشن کے پیسے کی ریکوری ورنہ کم از کم ذمہ دار کی نشاندہی اور سزا ضروری ہے۔

مخدوم علی خان نے موقف اختیار کیا کہ نیب قانون کا غلط استعمال ہو رہا تھا ترمیم لازمی تھیں، اسفند یار ولی اور کئی دیگر مقدمات میں نیب قانون کے بارے میں آبزرویشن دی گئیں۔ جس پرجسٹس منصور علی شاہ بولے؛ ابھی تک ہمیں پتہ نہیں کہ کون سا بنیادی حق متاثر ہو رہا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال بولے؛ کرپشن کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ یہ معاشرے کو تباہ کر دیتا ہے، کرپشن سے آگے بڑھنے کے مساوی مواقع ختم ہو جاتے ہیں، لوگوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملتی، کرپشن سے نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، یہ معاملہ پھر بنیادی حقوق تک پہنچ جاتا ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ لیونگ پلنگ فیلڈ سیلاب متاثرین سے لیکر کئی لوگوں کو نہیں ملتی، میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاملہ  ہم نے دیکھنا ہے۔ کیا ہم کہہ دیں آج سے ان علاقوں میں کوئی رہے ہی نہ جہاں سیلاب آتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ آدھا ملک ایسی جگہوں پرآباد ہے۔ زندگی تو فیئر ہے ہی نہیں، سوسائٹی میں یہ مسائل ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ یہ کہہ دینا کہ احتساب کا بنیادی حقوق سے کوئی تعلق نہیں بہت سادہ بات لگتی ہے۔ عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ قانون سازی سے کسی غلط چیز کا دروازہ تو نہیں کھولا گیا۔

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ نیب ترامیم کے خلاف وہ شخص عدالت آیا جو خود وزیراعظم رہ چکا ہے۔ جب وہ وزیراعظم تھے وہ خود اور ان کے وزیر خزانہ بھی کہتے تھے نیب قانون سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیخلاف کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کو عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کے اٹھائے گئے نکات پرتحریری جواب دینے کی ہدایت کی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp