ملک بھر میں عوام بجلی کے زائد بلوں کے باعث سراپا احتجاج ہیں اور اس حوالے سے تاجروں نے جمعرات کو بھی متعدد مقامات پر ہڑتال کی اور مارکیٹیں بند رکھیں جبکہ 2 ستمبر کو ملک بھر میں مکمل پیہ جام ہڑتال کا اعلان بھی ہوچکا ہے۔ دوسری جانب نگراں حکومت نے عوام کو بلوں میں ریلیف دینے کے لیے 5 میٹنگز کر لی ہیں تاہم اب تک کوئی مثبت اعلان نہیں ہو سکا ہے۔
حکومتی ذرائع کی جناب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے کے باعث بجلی پر ریلیف دینا ممکن نہیں ہے اور حکومت عالمی ادارے کی اجازت کے بغیر ایسا کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی۔ گو بجلی بلوں پر ریلیف کے لیے آئی ایم ایف سے درخواست بھی کی جا چکی ہے لیکن اس پر حکومت کے مطابق اسے کوئی حتمی جواب نہیں ملا ہے۔
آئی ایم ایف معاہدے اور بجلی بلوں پر حکومتی ریلیف پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی مہتاب حیدر کے مطابق نگراں حکومت اس پر غور کر رہی ہے کہ اگست اور ستمبر کے مہینوں کے بلوں میں عوام کو فوری ریلیف فراہم کردیا جائے اور ریلیف میں ملنے والی رقم عوام سے سردیوں کے 6 ماہ کے بلوں میں تقسیم کرکے واپس وصول لی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ بجلی کے بلوں سے سیلز اور ودہولڈنگ ٹیکس کم کرنے اور سرچارج کو کم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
مہتاب حیدر نے کہا کہ پاکستان نے مہنگی بجلی کے تناظر میں ملکی صارفین کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک پلان شیئر کیا ہے اور ساتھ ہی یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ عالمی ادارے کے مقرر کردہ اہداف کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کی دئ گئی اطلاع شیئر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2023-24ء کے بجٹ میں ہنگامی بنیادوں پر 250 ارب روپے مختص کیے گئے تھے اور یہ رقم بجلی صارفین کو ریلیف دینے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجوزہ ریلیف پیکج پر آئی ایم ایف کو قائل کرنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے اور یہ ریلیف پیکیج 400 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین تک محدود ہو سکتا ہے۔
سینیئر صحافی مہتاب حیدر کے مطابق آئی ایم ایف کسی بھی قسم کے ٹیکس کو کم کرنے پر رضامند نہیں ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف آفیشلز کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف ممکنہ طور پر 9200 ارب روپے کے ٹیکس ٹارگٹ پر سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گا اور آئی ایم ایف پروگرام میں 900 ارب کی ٹارگٹ سبسڈی پر آئی ایم ایف کو اعتماد میں لیا ہوا ہے لیکن حکومت اس سے زیادہ ریلیف نہیں دے سکتی۔
مہتاب حیدر نے کہا کہ اگر حکومت نے کوئی ریلیف دیا تو وہ صرف ایک حد سے کم یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کے لیے ہوگا لیکن زیادہ بجلی استعمال کرنے والوں کو کوئی بھی ریلیف نہیں مل سکے گا۔
مہتاب حیدر نے کہا کہ نگراں وزیر خزانہ کے چارج سنبھالنے کے بعد وزارت میں کوئی بھی کسی سے متعلق بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے صرف 2 پریس ریلیزیں جاری کی ہیں جن میں سے ایک ان کے چارج سنبھالنے جبکہ دوسری ای سی سی اجلاس کو چیئر کرنے کے حوالے سے تھی۔
وزیر خزانہ کی جانب سے ڈالر کی قدر میں اضافے پر کوئی بات نہیں کی جا رہی جس پر سب کو تشویش ہے جبکہ انہیں مارکیٹ سے غیریقینی کی صورتحال کے خاتمے کے لیے لوگوں سے بات کرنی چاہیے۔ مزید برآں میڈیا پر خبریں چل رہی ہیں کہ وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ اور نگراں وزیر خزانہ ایک پیج پر بھی نہیں ہیں۔