نیب ترامیم کیخلاف کیس: بہت سے بنیادی حقوق نیب ترامیم سے متاثر ہو رہے ہیں، چیف جسٹس

جمعہ 1 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ مئی 2023 سے پہلے نیب ریفرنسز کا واپس ہونا سنجیدہ معاملہ ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بھی بینچ کا حصہ تھے۔

چیف جسٹس کے ریمارکس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آمدن سے زائد اثاثوں اختیارات کے غلط استعمال اور پلی بارگین سے متعلق ترامیم کو دیکھنا ہے، دنیا بھر میں آمدن سے زائد اثاثوں کا ٹیسٹ بہت کم استعمال ہوتا ہے، دنیا بھر میں ڈائریکٹ شواہد استعمال ہوتے ہیں آپ کی یہ ٹرانزیکشن غلط ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے ادارے کو مضبوط کیا جائے تو وہ ان معاملات کو خود دیکھ سکتا ہے، صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں، بدنیت لوگوں کے ہاتھ میں اتھارٹی دی جاتی رہی،  کئی لوگوں کے پاس منشیات اور دیگر ذرائع سے حاصل داغدار پیسہ موجود ہے۔

چیف جسٹس کے مطابق داغدار پیسے کا تحفظ کر کے سسٹم میں بہت سے لوگوں کو بچایا جاتا ہے، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ منصفانہ اور شفاف معاشرہ قائم کرے، ریاست نے یقینی بنانا ہے کہ مجرم آزاد نہ گھومیں، معاشی مواقع چھیننے کی وجہ سے لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ معیشت کے شعبے کو سیاسی طاقتور لوگوں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بنیادی حقوق کے براہ راست تعلق کا سوال اٹھا رہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ بہت سے بنیادی حقوق نیب ترامیم سے متاثر ہو رہے ہیں، لوگ اپنے نمائندے کسی مقصد سے منتخب کرتے ہیں اور وہ مقصد آئین میں درج ہے۔

سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل سے منگل کو حتمی دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی ہے۔

سماعت کا آغاز

آج سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے حکومتی وکیل مخدوم علی خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کل ہم نے ترمیمی قانون میں ایک اور چیز دیکھی کہ مشترکہ قانونی معاونت(ایم ایل اے)  کے قانون کے تحت حاصل کردہ شواہد کی حثیت ختم کر دی گئی، اب نیب کو خود یہ خدمات حاصل کرنا ہوں گی جو مہنگی پڑیں گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے کل کہا تھا کہ ایم ایل اے کے علاوہ بھی بیرون ملک سے جائیدادوں کی رپورٹ آئی ہے، قانون میں تو اس ذریعے سے حاصل کردہ شواہد قابل قبول ہی نہیں۔

مخدوم علی خان بولے؛ کل یہاں بہت کہا گیا کہ نیب تحقیقات پر اربوں روپے لگے، اربوں روپے نیب پر لگتے پھر انہیں شواہد ایم ایل اے کے ذریعے منگوا کر دیے جاتے، اٹارنی جنرل کس اتھارٹی کے ذریعے نیب کے لیے ایم ایل اے بھیجتے رہے، یہ سب کر کے بھی نیب مقدمات میں سزا کی شرح 50 فیصد سے کم تھی۔

اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال بولے؛ ہمارے کرمنل جسٹس سسٹم میں بھی سزا کی شرح 70 فیصد سے کم ہے، ان میں سے بھی کہیں مقدمات اوپر جا کر آپس میں طے ہو جاتے ہیں، ہم یہ ڈیٹا دیکھ رہے ہوتے ہیں یہ تشویش کی بات ہے، قتل کے مقدمات میں 30، 40 فیصد لوگوں کو انصاف نہیں ملتا۔ ریاست کا بنیادی کام ہی لوگوں کو انصاف دینا ہوتا ہے۔

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ کئی متاثرین عدالتوں میں ملزمان کو شناخت کرنے سے انکار کر دیتے ہیں، متاثرین کو یقین ہی نہیں ہوتا کہ وہ ملزمان کی شناخت کے بعد محفوظ رہیں گے یا نہیں۔

نیب ترامیم استفادہ حاصل کرنے والے ملزمان کی نئی فہرست پیش

عدالتی استفسار پر نیب کی جانب سے نیب قانون میں ترامیم کی بدولت ریلیف حاصل کرنیوالے ملزمان کی نئی فہرست پیش کر دی گئی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سیکشن 21G ایم ایل اے کے ذریعے شواہد حاصل کرنے کا اختیار دیتی ہے، عدالتی استفسار پرانہوں نے بتایا کہ دفتر خارجہ کے ذریعے شواہد حاصل کیے جاتے ہیں اور تصدیق کا ایک پورا عمل مکمل کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مئی 2023 سے پہلے نیب ریفرنسز کا واپس ہونا سنجیدہ معاملہ ہے۔ ہمارے پاس نیب ریفرنس واپس ہونے سے متعلق تفصیلات پر مبنی فہرست ہے، بات یہ ہے کہ ہم نے آج کیس ختم کرنا ہے، ہمارے پاس جمعہ کی وجہ سے آج ساڑھے بارہ بجے تک کا وقت ہے۔

چیف جسٹس نے ان ریمارکس کے ساتھ درخواست گزار عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کو ساڑھے 12 بجے تک اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ پیر کو وہ کچھ وقت لیں گے۔ جس پر جسٹس اعجازالاحسن بولے؛ پیر تک وقت نہیں تحریری طور پر معروضات دے دیں ہم دیکھ لیں گے۔

‘یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں’

جسٹس منصور علی شاہ نے دریافت کیا کہ ایک منٹ کے لیے اپ کی بات درست مان لیں کہ ارکان پارلمینٹ نے خود کو فائدہ پہنچانے کے لیے ترامیم کی ہیں تو ہم کس قانون کے تحت نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے دیں؟ جس پر خواجہ حارث کا موقف تھا کہ عدالت آرٹیکل 9 کے تحت نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے کیونکہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ بولے؛ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں۔

اومنی گروپ کے عبدالغنی مجید کی درخواست بریت کا حوالہ دیتے ہوئے خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ پہلے ایمنیسٹی اسیکم سے فائدہ لیا تھا اب انہوں نے نیب ترامیم کی بنیاد پر کیس واپس بھیجنے کا کہا ہے۔ ایسے ملزمان کو خاص فائدہ دینے کے لیے کچھ سطور کا اضافہ کیا گیا ہے۔

جس پر چیف جسٹس بولے؛ ایمنسٹی اسیکم کو اگر ٹیکس کا قانون قبول کر رہا ہے تو نیب کا اس سے کیا تعلق ہے، ایمنسٹی اسیکم میں جس نے جائیداد ظاہر کر کے ٹیکس دے دیا نیب اس کے پیچھے نہیں جا سکتا۔

خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ ایمنیسٹی اسکیم غیر قانونی طریقے سے حاصل جائیداد کو تحفظ نہیں دے رہا تھا،غیر قانونی طریقوں سے بنائے گے ان اثاثون کو نیب ترامیم سے تحفظ دیا گیا۔ چیف جسٹس بولے؛ آپ پبلک آفس ہولڈر  کی حد تک کہہ سکتے ہیں انہیں یہ تحفظ دیا جائے، کاروباری افراد کے لیے تو تحفظ موجود ہونا چاہیے۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ کاروباری لوگ بھی رشوت دیتے ہیں، جس پر چیف جسٹس بولے؛ رشوت کا معاملہ سامنے آئے تو الگ بات ہے۔ نیب قانون کا غلط استمال ہوتا رہا اس بات کو آپ بھی مانیں۔

‘بلاوجہ پارلیمنٹ پر شک کی ضرورت نہیں’

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ارکان پارلیمنٹ نے اگر ذاتی مفاد کے لیے قانون بنالیا ہے تو اگلی بار ان کو ووٹ نہ دیں، جہموریت ایسے ہی کام کرتی ہے بلاوجہ پارلیمنٹ پر شک کی ضرورت نہیں، اداروں کو اپنی اپنی حدود میں کام کرنے دیں غیر ضروری مداخلت ٹھیک نہیں۔

عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے پارلیمنٹ میں ہی ان باتوں پر لڑنا تھا جسے آپ چھوڑ کر چلے گئے آپ نے نشست سے استعفیٰ دینا تھا تو اسے کسی اور کے لیے خالی کرتے۔ خواجہ حارث کا موقف تھا کہ انہوں نے نشست سے استعفیٰ دیا تھا وہ منظور نہیں کیا گیا۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ  اثاثوں سے متعلق شق بھی نیب کی سیکشن 9 میں ہے، جہاں اس کی تعریف کرپشن کے طور پر کی گئی ہے۔ جس پر چیف جسٹس بولے؛ ماضی میں کسی اثاثے کی مالیت کیا تھی یہ قیاس آرائی ہی ہو سکتی ہے۔ کوئی پراپرٹی ڈیلر ہی کہہ سکتا ہے کہ یہ جائیداد کچھ برس قبل کتنی مالیت کی تھی۔ نیب کچھ تو کنکریٹ شواہد لایا کرے اثاثوں کی اصل مالیت سامنے نہیں آتی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو تو ہم ایک چھٹی پر بھی نوٹس لے سکتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ بولے؛ دیکھنا یہ بھی ہوگا وہ چھٹی کس نے بھیجی ہے، پارلمینٹ کا فورم چھوڑ کرعدالت آنے سے نیک نیتی کا سوال تو آئے گا۔ خواجہ حارث کا موقف تھا کہ وہ انکا سیاسی فیصلہ تھا وہ مستعفی ہونے کا حق رکھتے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ لوگ اس لیے ملک چھوڑ جاتے ہیں جب روزگار کے مواقع ختم ہوجاتے ہیں، سیاسی طور پر مضبوط ہونا ہی ملک میں بقا کا لائسنس بن گیا ہے۔ لوگ کسی مقصد کے تحت ہی نمائندوں کو منتخب کرکے بھیجتے ہیں، مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ آئین کے تحت اس ملک میں گورننس یقینی بنائیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp