شاہین شاہ آفریدی نے پہلی گیند کرانے کے لیے جیسے ہی دوڑنا شروع کیا تو شائقین کرکٹ کے دلوں کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اس سے قبل پاکستان اور بھارت کا آخری جوڑ اکتوبر 2022 میں ہونے والے ٹی 20 ورلڈکپ میں پڑا تھا جہاں روہت شرما نے محتاط انداز میں کھیلتے ہوئے شاہین کے پہلے دونوں اوورز میں اپنی وکٹ محفوظ رکھی تھی۔شاہین اُس میچ میں کوئی وکٹ نہیں لے پائے البتہ حارث روؤف نے چوتھے ہی اوور میں روہت کو واپس روانہ کر دیا تھا۔ شاہین شاید پُرانا حساب چکتا کرنا چاہتے تھے سو پہلی گیند فل لینتھ پر پڑی۔فخر زمان نے اگرچہ دوسری گیند پر ڈائیو لگا کر روہت شرما کو واپس بھیجنے کی کوشش کی تھی مگر قسمت نے ان کا ساتھ دیا اور امپائر کے قریب کھڑے فخر کیچ نہ کر سکے۔شاہین کا پہلے کے بعد دوسرا اوور بھی وکٹ کے بغیر مکمل ہوا تو کمنٹیٹرز ان کی لائن میں مسئلے تلاش کر رہے تھے۔ بارش شروع ہونے سے قبل شاہین نے تیسرے اوور کی 2 گیندیں کرائیں تو ویرات کوہلی بیٹ اور پیڈ پہن کر تیار بیٹھے تھے۔ میچ کا پانچواں اوور جاری تھا مگر وکٹ تاحال نہیں ملی تھی کہ بارش شروع ہو گئی۔
قسمت شاہین کے ساتھ تھی۔۔
بارش کے بعد جو کچھ ہوا وہ جادوگری سے کم نہیں تھا۔ یوں لگا جیسے قدرت نے شاہین کو سوچنے کا موقع دیا تھا۔ وہ ایک ایک گیند سوچ کر واپس آئے۔ پہلے تو انہوں نے باہر کو نکلتی ہوئی گیندیں کرائیں اور پھر اوور کی آخری گیند پر وہی دیکھنے کو ملا جو شاہین ایک عرصے سے کرتے آئے ہیں۔ اندر کو آتی ہوئی گیند کا نشانہ آف سٹمپ بنی اور بھارتی کپتان کو پویلین واپس لوٹنا پڑا۔ ایک بار جو کھاتہ کھُلے تو پھر شاہین کو بھلا کون روک سکتا تھا؟انہوں نے چوتھا اوور شروع کیا تو شبھن گل نے سنگل لے کر کوہلی اور شاہین کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا۔ امکان تھا کہ کوہلی گزشتہ برس کے ٹی 20 ورلڈ کپ کی تاریخ دہرائیں گے مگر انہوں نے شاہین کی باہر نکلتی ہوئی ایک گیند چھوڑنے کا تکلف ہی کیا۔ اگلی گیند نے ویرات کوہلی کے بلے کا اندرونی کنارہ لیا اور شاہین نے دونوں ہاتھ فاتحانہ انداز میں فضا میں بلند کر لیے۔
وسیم اور وقار کی واپسی؟
اگلے اوور میں نسیم شاہ کی جگہ حارث روؤف آئے تو لگا شاید کچھ جلدبازی کی گئی ہے۔ نسیم اور شاہین کو دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے وقار اور وسیم اکرم دوبارہ گراؤنڈ میں اتر آئے ہوں۔ حارث روؤف نے اپنے پہلے اوور میں 12 رنز دئیے تو لگا فیصلہ کچھ غلط ہوا ہے۔شاہین نے میڈن اوور کرایا اور پھرحارث کی گیند پر فخر زمان کے ہاتھوں نے پاکستان کو دسویں اوور میں تیسری وکٹ دلائی۔ اب کمنٹیٹرز منہ بھر کر پاکستانی پیس اٹیک کی تعریفوں میں مگن تھےکہ ایک بار پھر بارش نے میچ روکنے پر مجبور کر دیا۔
بارش کے بعد حارث روؤف نے اپنے نامکمل اوور کا دوبارہ آغاز کیا تو ایشان کشننے چھکا لگا کر رن ریٹ پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کا پیغام دیا۔ حارث نے چوتھی وکٹ بھی دلائی مگر باری اب بابر اعظم کی تھی کہ وہ کتنے دلیرانہ فیصلے لیتے ہیں؟حارث کے ساتھ دوسرے اینڈ سے شاداب بالنگ کرا رہے تھے مگر وکٹ انہیں کسی قسم کی مدد نہیں دے رہی تھی۔ حارث نے اپنا پہلا اسپیل مکمل کیا تو ان کی جگہ نواز نے سنبھالی۔ چوبیسویں اوور تک جب پانچویں وکٹ نہیں ملی تو بابر نے گیند دوبارہ شاہین کے ہاتھ میں دی۔
شاہین کا دوسرا سپیل۔۔
پاکستانی شائقین کو پورا یقین تھا کہ شاہین اس اسپیل میں اپنی جادوگری دوبارہ دکھائیں گے۔ انہوں نے اپنی سی بھرپور کوشش کی مگر جس انداز میں ہاردک پانڈیا نے انہیں کڑاکے دارچوکا لگایا سب کو یقین ہو گیا کہ وہ آج کسی کے قابو میں آنے والے نہیں۔ شاہین کے دوسرے اوور میں صرف ایک رن بنا ۔ یہ وقت تھا کہ بابر میچ سے قبل بننے والے پلان کی جگہ اٹیک جاری رکھتے۔ انہوں نے دوسرے اینڈ سے سلمان علی آغا کو متعارف بھی کرایا مگر دوسری جانب سے شاداب سے چھٹا اوور کرانے کا فیصلہ کیا۔چھیاسٹھ پر چار وکٹیں کھونے کے بعد اب تک ایشان اور ہاردک کی جوڑی چوہتر رنز جوڑ چکی تھی اور اب انہیں ہلانا مشکل نظر آرہا تھا۔
پینتیس اوورز کے بعد جب حارث روؤف کو دوبارہ یاد کیا گیا تب شاید بہت دیر ہو چکی تھی۔ مس فیلڈز اور اسپن بالنگ کو کھیلنے کی ہندوستانی بلے بازوں کی مہارت نے اسکور بورڈ پر 200 کا ہندسہ قریب لا کھڑا کیا تھا۔ جس انداز میں پانڈیا اور ایشان بلے بازی کر رہے تھے 300 کا ہندسہ بھی زیادہ دور نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ حارث نے اپنے دوسرے اوور میں ایشان کشان کو پولین لوٹنے پر مجبور کیا تو بھارتی ڈگ آؤٹ میں زیادہ پریشانی دکھائی نہیں دی کیونکہ پانڈیا ابھی کریز پر موجود تھے۔
اس سارے عرصے میں بابر نے سلمان علی آغا کی شکل میں اپنے بولنگ پلان میں کچھ ورائٹی لائی تھی مگر افتخار کو گیند بازی کا موقع نہیں ملا تھا۔ شاید بابر اعظم نے باقی اسپنرز کی کارکردگی دیکھ کر انہیں گیند نہ دینے کا فیصلہ کیاتھا ۔ چالیس اوورز مکمل ہوئے تو نسیم شاہ کی واپسی ہوئی مگر تب تک بھارتی بلے باز 5 وکٹوں کے نقصان پر 221 رنز بنا چکے تھے۔ اب 300 رنز نوشتہ دیوار تھے۔
بیالیسواں اوور شاداب سے کیوں کرایا گیا؟
شاداب اور نواز دونوں آٹھ آٹھ اوورز کرا چکے تھے کہ اچانک بیالیسویں اوور کے لیے بابر نے گیند دوبارہ شاداب کے ہاتھ میں تھما دی۔ نسیم نے اگرچہ اپنا اینڈ سنبھال رکھا تھا مگرکپتان شاید اوورز کے حساب کتاب میں غلطی کر بیٹھے۔ شاداب کے نویں اوور میں گیارہ رنز ہی بنے مگر تب تک پانی سر سے گزر چکا تھا۔ پاکستانی اسپین بولنگ نے 21 اوورز کرائے تھے جب کہ فاسٹ بولرز اب 29 اوورز سے زیادہ نہیں کرا سکتے تھے۔ بیالیس اوورز میں 237 رنز بنے ہوں اور ہاتھ میں 5 وکٹیں باقی ہوں تو بڑا ٹوٹل مشکل نہیں ہوتا۔ مگر شاہین اور نسیم نے ڈیتھ اوورز میں ایک بار پھر کمال کر دکھایا۔40 اوورز میں 221 رنز بنانے والی بھارتی ٹیم اس کے بعد5 وکٹوں کےبدلے 45 رنز ہی بنا پائی جس میں شاداب کے خلاف ایک اوورگیارہ رنز بھی شامل تھے۔
اسپن بمقابلہ فاسٹ باؤلنگ:
پاکستانی اسپرز نےاس میچ میں 21 اوورز کرا کے 133 رنز دئیے اور کوئی وکٹ حاصل نہ کر سکے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں فاسٹ باؤلرز نے 27 اوورز پانچ گیندیں کرا کے 129 رنز دئیے اور تمام کی تمام 10 وکٹیں اپنے نام کیں۔ یقیناً اس میں پچ کے مختلف اوقات میں مختلف برتاؤ نے کلیدی کردار نبھایا ہے لیکن شاید کپتان اگر مناسب وقت پر بہتر فیصلے لیتے تو یہ اعداد و شمار کہیں بہتر ہو سکتے تھے۔ شاداب نے گزشتہ میچ میں نیپال کی 4 وکٹیں لیں تھیں اور وہ ملتان اسٹیڈیم تھا۔ یہاں پچھلے میچ میں سپنرز نے وکٹیں حاصل کی تھیں لیکن آج صورتحال خاصی مختلف تھی، جس کے حساب سے فیصلے لیے جانے ضروری تھے۔
پلان بی کہاں تھا؟
تین فاسٹ باؤلرز کے ساتھ فیلڈ میں اترتے ہوئے یقیناً یہی خیال ہوا ہو گا کہ باقی ماندہ بیس اوورز سپنرز کرائیں گے۔ لیکن جب چھیاسٹھ پر چار آؤٹ ہوں اور ہاردک پانڈیا سامنے ہوں تو ان سے چھٹکارے کے لیے فاسٹ باؤلرز کو کم از کم ایک اینڈ سے برقرار رکھا جا سکتا تھا۔ فاسٹ باؤلرز نے جہاں آخر میں آکر بھارتی ٹیم کو 300 رنز بنانے سے روکا وہیں یہ سوال بھی کھڑا ہو گیا کہ کپتان حالات کے مطابق اپنے پلان کو تبدیل کیوں نہیں کرتا؟ شاید بارش نے میچ کو بے نتیجہ بنا دیا ورنہ بنگلہ دیش کے 164 رنز کے مقابلے میں سری لنکا کی ٹیم اسی گراؤنڈ پر مشکل میں نظر آئی تھی۔