بڑھتے ہوئے بجلی بلوں اور اضافی ٹیکس کے خلاف خیبر پختونخوا سمیت پاکستان بھر میں احتجاجی مظاہرے ہور ہے ہیں، ایسے میں خیبر پختونخوا میں ایسے گاؤں بھی ہیں جہاں کے مکین بجلی بلوں سے خوش ہیں اور بروقت ادائیگی بھی کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے لوڈشیڈنگ بھی نہیں ہو تی۔
یہ گاؤں خیبر پختونخوا کے شمال میں چترال کے انتہائی دورافتادہ اور پہاڑی علاقے ہیں۔ جہاں سڑک اور دیگر سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لیکن 24 گھنٹے بجلی کی سہولت سے یہاں کی زندگی بدل گئی ہے۔
اپر چترال میں پہاڑوں کے دامن میں واقع چھوٹے سے گاؤں کھوژ کے مکین بھی حالیہ بجلی بلوں میں اضافے سے پریشان نہیں۔ اور نہ ہی بلوں میں اضافے کے خلاف احتجاج یا شٹر ڈاؤن ہڑتال کر رہے ہیں بلکہ جس وقت پورے ملک میں بجلی بلوں کی ادائیگی نہ کرنے کا اعلان ہو رہا ہے، وہیں یہاں کے مکین بل جمع کرا رہے ہیں۔
گرمیوں میں ایک ہزار، سردیوں میں 3 ہزار تک بل آتا ہے، فخروالدین
فخروالدین کھوژ کے مکین ہیں، انہوں نے رواں ماہ جو بجلی بل جمع کرایا وہ 1200 روپے آیا تھا۔ انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ ان کا بل گرمیوں میں ایک ہزار سے 1200 تک آتا ہے جبکہ سردیوں میں 2 ہزار سے 3 ہزار تک آتا ہے۔ ’بجلی بل انتہائی مناسب ہے اور ہم بروقت ادا بھی کر رہے ہیں جس کی وجہ سے 24 گھنٹے بجلی ملتی ہے‘۔
یہ نیشنل گرڈ کی بجلی نہیں ہے
کھوژ اور اس جیسے دیگر پسماندہ گاؤں کے رہائشی نیشنل گرڈ سے حکومتی بجلی استعمال نہیں کر رہے، اور نہ ہی ان علاقوں میں بجلی کی لائنیں ہیں۔ سادہ الفاظ میں ان علاقوں کو حکومت بجلی ہی نہیں دے رہی، یہ گاؤں والے اپنی مدد آپ اور این جی اوز کی مدد سے فراہم کردہ بجلی استعمال کر رہے ہیں۔
فخروالدین نے بتایا کہ بجلی عوام کی ہے اور سارے صارفین ’اونر‘ ہیں، جس کی وجہ سے بل بھی بر وقت ادا کرتے ہیں، یہاں اوور بلنگ جیسا کوئی مسئلہ نہیں۔
پن بجلی گھر کی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں، نذیر بیگ
محمد نذیر بیگ ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے علاقے میں حکومت کی طرف سے کچھ خاص کام نہیں ہوئے بلکہ مقامی رہائشی خود اتفاق سے اپنی زندگی کی بہتری اور علاقائی ترقی کے لیے مل کر کام کرتے ہیں۔ جس کی بہترین مثال ان کا پن بجلی گھر ہے جس سے ان کی زندگیاں بدل گئیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے علاقے میں 6 ماہ سخت سردی ہوتی ہے۔ گیس کی سہولت نہیں ہے اور لکڑی جلا کر گزارہ کرتے ہیں۔ ’پن بجلی کے بعد اب لکڑی پر انحصار 80 فیصد تک کم ہو گیا، کچن سے لے کر ہیٹر تک بجلی کا استعمال کرتے ہیں‘۔
نذیر بیگ نے بتایا کہ روٹی سے لے کر چائے اور سالن سب کچھ اب بجلی پر تیار کرتے ہیں۔ جبکہ گرم پانی کے لیے گیزر بھی سارا دن لگاتے ہیں کیونکہ سرد علاقہ ہے، گرم پانی ہر وقت ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا انحصار بجلی پر ہے۔ اس سہولت کی وجہ سے اب لکڑیاں جلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
لکڑی استعمال کرتے تو خرچہ 3 لاکھ تک جاتا
فخروالدین نے بتایا کہ ان کا علاقہ سرد ہے اور سردیوں میں یہاں برف پڑتی ہے۔ جس کی وجہ سے بجلی کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ سردیوں میں گیزر اور ہیٹرز کا استعمال بھی زیادہ ہو جاتا ہے جس سے گرمیوں کی نسبت سردیوں میں بل زیادہ آتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سردیوں میں کھانے پینے کی اشیا بنانے سے لے کر ہیٹر اور گیزر استعمال کرنے کے بعد بھی زیادہ سے زیادہ بل 2 سے 3 ہزار تک آتا ہے جو انتہائی مناسب ہے۔
فخروالدین نے کہاکہ اگر بجلی نہ ہوتی اور لکڑی استعمال کرتے تو خرچہ 3 لاکھ تک آتا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے لیے بجلی بہت بڑی سہولت ہے اور پورا گاؤں اس منصوبے کا مل کر خیال کرتا ہے۔ ’کوئی خرابی آ جائے یا پانی کی سپلائی لائن میں کوئی مسئلہ ہو تو پورا گاؤں رضاکارانہ طور پر اس کی بحالی کے لیے اپنی خدمات انجام دیتا ہے۔
بلوں کی رقم سے تنخواہوں کی ادائیگی کے بعد بچت بھی ہوتی ہے
نذیر بیگ پن بجلی گھر کمیٹی کے ممبر بھی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بجلی گھر کے ملازمین ہیں جو میٹر ریڈنگ اور آپریشن کو دیکھتے ہیں۔ گاؤں والے خود ذمہ داری سے بل ادا کرتے ہیں جس سے ملازمین کو تنخواہ کی مد میں ادائیگی کی جاتی ہے جبکہ اس میں بچت بھی ہوتی ہے۔ جو کبھی مشینری میں خرابی کے وقت استعمال کرتے ہیں۔
’یہ منصوبہ آغا خان کے ادارے نے بنا کر دیا ہے، اب دیکھ بھال کمیونٹی کی ہے۔ جس کے لیے کمیٹی ہے اور مقامی لوگ ممبرز ہیں‘۔
نذیر بیگ نے مزید بتایا کہ ان کے علاقے میں پانی کی وافر مقدار موجود ہے جس کی مدد سے پن بجلی گھر بنایا گیا، جبکہ تعمیراتی کام زیادہ تر مقامی آبادی نے رضاکارانہ طور پر کیا۔
’حکومت کی طرف دیکھتے تو اب بھی بجلی سی محروم ہوتے‘
فخروالدین اور نذیر بیگ دونوں کا خیال ہے کہ ترقی کے لیے مقامی آبادی کا ساتھ دینا ضروری ہے۔ نذیر بیگ نے کہاکہ اگر وہ دیگر گاؤں والوں کی طرح حکومت کی طرف دیکھتے تو شاید ابھی تک بجلی سے محروم ہوتے۔ کیونکہ اب تک ان کے علاقے میں بجلی کی لائنیں نہیں ہیں۔ اور نہ ہی حکومتی بجلی کی کوئی امید ہے۔ ’اگر حکومتی بجلی استعمال کرتے تو آج ہم بھی پورے پاکستان کی طرح احتجاج یا واپڈا کو بل کم کرنے کی منتیں کرتے۔ شکر ہے نہیں کر رہے‘۔
پن بجلی سے معاشی فائدہ
لیاقت علی شاہ کھوژ کے رہائشی ہیں جنہوں نے بجلی آنے کے بعد آرا مشین کا کاروبار شروع کیا ہے۔ ان کے مطابق بجلی کی سہولت سے پہلے ان کی معاشی حالت کمزور تھی جبکہ بجلی کی سہولت کے بعد گاؤں میں ہی کاروبار شروع کیا اور چل پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ گاؤں میں دیگر کاروبار بھی شروع ہوئے ہیں جس سے مقامی لوگوں کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے۔
پن بجلی گھروں کی تعمیر سے عوام توانائی میں خود کفیل
چترال کے دور افتادہ علاقے دور جدید میں بھی حکومتی توجہ سے محروم ہیں۔ ان علاقوں میں سڑکیں انتہائی خراب ہیں اور زیادہ تر سڑکیں مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ یا این جی اوز کے تعاون سے بنائی ہیں اور مرمت بھی خود کرتے ہیں۔
ان علاقوں میں پن بجلی گھروں کی تعمیر سے وہ بجلی میں خودکفیل ہیں۔ اور بل بھی انتہائی مناسب ہے جو غریب طبقہ بھی آسانی سے برداشت کر سکتا ہے۔ لوگ پن بجلی گھر منصوبے کا خیال بھی کرتے ہیں اور بجلی بل برقت ادا کرتے ہیں جس سے لوڈ شیڈنگ یا اوور بلنگ نہیں ہوتی۔
پری پیڈ میٹرز
نجی تنظمیوں کی مدد سے تعمیر پن بجلی گھروں نے جدید میٹرز بھی نصب کیے ہیں۔ جن کی وجہ سے میٹر ریڈنگ کی بھی ضرورت نہیں۔ لاسپور اور یارخون ویلی پاور میں پری پیڈ میٹرز نصب کیے گئے ہیں، صارفین کو پہلے ہی یونٹس خریدنے پڑتے ہیں اور بقایاجات یا اوور بلنگ کا ایشو نہیں ہوتا۔ اس عمل کی وجہ سے صارفین بھی احساس ذمہ داری سے بجلی استعمال کرتے ہیں۔
چترال کے دورافتادہ علاقوں کے پن بجلی گھر مثالی ہیں اور حکومت بھی ایسے علاقوں میں کم بجٹ سے بجلی بنا کر نیشنل گرڈ میں لا سکتی ہے جو سستی ہے۔