وی نیوز ایکسکلوسیو: حکومت کیئر ٹیکر نہیں بلکہ انڈر ٹیکر ہے، سردار اختر مینگل

بدھ 6 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے وی نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ ذاتی حیثیت میں ان کا کسی سے کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن ملک میں جنہیں نگراں حکومت دی جاتی ہے ان کی سیاسی جد وجہد کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ایک اہم بات یہ کہ وزیراعظم کو کیئر ٹیکر ہونا چاہیے انڈر ٹیکر نہیں۔

سردار اختر مینگل نے کہا کہ ’انوار الحق کاکڑ کی تقرری سے ناراضی شاید بہت سوں کو ہو لیکن اس کا اظہار صرف میں نے کیا۔ اب دیکھ لیں کہ آج ان سے جو فیصلے کروائے جارہے ہیں وہ میری بات کی صداقت ظاہر کرتے ہیں‘۔

اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ایسے فیصلے وہ نہیں کر سکتے جن کی نشوونما سیاسی طور پر ہوتی ہے بلکہ ایسا وہ کرتے ہیں جن کی نشوونما اداروں کے پولٹری فارم میں ہوئی ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی رہنما اپنے عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔

سربراہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے کہا کہ نگراں حکومت سے جو فیصلے کروائے جارہے ہیں یہ نگراں حکومت کے نہیں بلکہ آئندہ آنے والی حکومت کے گلے پڑیں گے۔

 کیا نگراں حکومت 90 دن میں انتخابات کروا سکتی ہے؟

اس سوال کے جواب میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ نگراں حکومت کی اہلیت کے بارے میں تو کچھ کہہ نہیں سکتے لیکن انہیں جو کہا جائے گا اس پر وہ انکار نہیں کریں گے۔ جہاں تک بات رہی انتخابات کی وہ آئین کے مطابق 90 روز میں ہونے چاہییں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہونے کو تو عوامی لیگ کی حکومت کو بھی ختم نہیں ہونا چاہیے تھا، ہونے کو تو آئین کے آرٹیکل 6 پر عملدرآمد ہونا چاہیے تھا اور بہت سی ایسی چیزیں موجود ہیں جنہیں ہونا چاہیے تھا مگر وہ ہوئیں نہیں اور ہم وہ دیکھیں گے جو اس وقت ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری کو بنیاد بنا کر شاید وہ انتخابات کو ملتوی کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نگراں حکومت کے سامنے اس وقت سب سے بڑا چیلنج ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنا ہے جس کے لیے ہاتھ پیر مارنے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے سب سے پہلے اپنے اخراجات کو کم کرنا ہوگا اور جب تک نگراں حکومت اپنی ترجیحات کو واضح نہیں کر لیتی تب تک معیشت کو بہتر کرنا ناممکن ہے۔

پی ڈی ایم کی بجائے نگراں حکومت سے مشکل فیصلے کروائے جارہے ہیں

سردار اختر مینگل نے کہا کہ جہاں تک فیصلے کروانے والوں کا بس چل رہا تھا انہوں نے پی ڈی ایم سے فیصلے کروائے۔ اس وقت پی ڈی ایم میں موجود سیاسی لوگ ان فیصلوں کے مخالف تھے۔ موجود نگراں  حکومت میں اتنی سکت نہیں کہ وہ انکار کر سکے۔ یہ تو ملازم کے طور پر آئے ہیں اور جو مالک کہے گا یہ وہ کریں گے۔

کیا لاپتا افراد کا مسئلہ گزشتہ 5 برسوں میں حل ہو پایا؟

اس سوال کے جواب میں اختر مینگل نے کہا کہ لاپتا افراد کا تعلق صرف بلوچستان سے نہیں۔ کیا ان لوگوں کے لیے آواز اٹھانے کی ذمہ داری صرف بی این پی کی ہے؟ وہ سیاسی جماعتیں کہاں ہیں جو خود کو انسانی حقوق کا علمبردار کہتی ہیں؟

سردار اختر مینگل نے کہا کہ لاپتا افراد کا تعلق کس ملک سے ہے۔ کیا وہ افغانی، ایرانی یا ہندوستانی ہیں؟ کیا ریاست کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ ان لاپتا افراد کو خود تلاش کرے۔ ریاست چاہے تو مسئلہ ایک دن میں حل ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد نے کلبھوشن یا ابھینندن سے بڑا جرم تو نہیں کیا ہوگا۔ ہمارے نصاب میں موجود ہے کہ اس ملک کا اگر کوئی دشمن ہے تو وہ ہندوستان ہے۔ اس ملک کے بچوں کو کڑک چائے پلا کر، سوٹ بوٹ پہنا کر ہندوستان کے حوالے کر دیتے ہیں کم سے کم لاپتا ہونے والے افراد کو ان ہندوستانیوں کے حقوق کا 20 فیصد ہی دے دیں اور ان کے اہل خانہ کو یہ بتا دیں کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں۔

لاپتا افراد سے متعلق کمیشن کی رپورٹ میں کون سے نکات شامل ہیں؟

سردار اختر مینگل نے کہا کہ لاپتا افراد سے متعلق بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ 400 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کمیشن نے معاملے کے تمام تر پہلوؤں کا جائزہ لیا جس میں تمام فریقین کی بات سنی گئی۔ اس رپورٹ کا مجموعہ یہ ہے کہ لاپتا افراد کے معاملے میں ریاست ذمہ دار ہے۔ اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ کمیشن کی رپورٹس صرف فائلوں کی حد تک محدود رہتی ہیں۔

وڈھ میں خانہ جنگی، معاملہ کیا ہے؟

سردار اختر مینگل نے بتایا کہ جنگ چاہے ممالک کے درمیان ہو یا قبائل کے بیچ کوئی بھی شوق سے جنگ کا حصہ نہیں بنتا۔ یہ حالات ہوتے ہیں جو انسان کو جنگ کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔ وڈھ میں خانہ جنگی آج سے نہیں بلکہ سنہ 2002 سے ہے۔ آج وڈھ میں جو خانہ جنگی ہے اس کا بیج جنرل پرویز مشرف نے بویا تھا اور وہاں ان لوگوں کو مستحکم کیا جارہا ہے جو رہزن، ڈاکو اور لٹیرے ہیں۔ گزشتہ 5 برسوں میں ان لوگوں کو پی ایس ڈی پی میں بھی کروڑوں روپے دے کر نوازا گیا ہے۔ یہ سب بی این پی کو شٹ اپ کال دینے کے لیے ہے۔

بلوچستان کے مسائل کا حل کیا ہے؟

سردار اختر مینگل نے کہا کہ معاملات ہمیشہ میز پر حل ہوتے ہیں بندوق کے زور پر نہیں۔ دنیا کی طاقتور قوتوں نے بھی بالآخر بات چیت کے ذریعے ہی مسائل کا حل تلاش کیا۔ بلوچستان کے احساس محرومی کو ختم کرنے لیے صوبے میں سیاسی ماحول کو ساز گار کرنا ہوگا۔ عوام کو ان کے نمائندے چننے کا حق دینا ہوگا اور احتساب کا فیصلہ بھی عوام کو دینا ہوگا کہ اگر کسی حکومت نے کارکردگی نہیں دکھائی تو عوام کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ ان کو ووٹ نہ دیں۔ جب تک عوامی نمائندوں کو مکمل اختیار حاصل نہیں ہوگا تب تک مسائل حل نہیں ہوسکتے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp