قتل و قتال پشتون کلچر نہیں ہے

جمعہ 8 ستمبر 2023
author image

شہریار محسود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پرویز مشرف نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا تو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قبائلی علاقوں کا خوب استعمال کیا ۔ مختلف فورمز پر پشتون کلچر کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے پرتشدد معاشرے سے تعبیر کرتے۔ایک بار تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ پاکستان کو بچانے کے لیے پندرہ بیس کروڑ لوگوں میں سے ایک آدھ کروڑ لوگوں کی قربانی دینا کوئی بڑی بات نہیں ہوگی۔خود کو عالمی سطح پر سچا ثابت کرنے کے لیے اپنے اداروں کو بھی گھسیٹ لاتے مگر ان کے بیانات کا بنیادی محور پشتون تھے جس کا خلاصہ وہی تھا جو سابق وزیراعظم عمران خان نےپوری دنیا میں پیش کیا کہ قتل وقتال پشتون کلچر کا حصہ ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کا جھوٹا بیانیہ سچ ثابت ہوا جس کے لیے پشتون ہی استعمال ہوئے مگر میں بطورِ چشم دید جو دکھانا چاہتا ہوں وہ اس سے بالکل الگ ہے۔نائن الیون سے پہلے جب ڈالر کے حصول کے لیے قبائل کی ضرورت اس حد تک نہیں تھی، قبائلی معاشرے کے کچھ ایسے بنیادی اصول تھے جس کو توڑنا پشتون ولی غیرت اور ناموس سے دستبردار ہونا مانا جاتا تھا۔

مثال کے طور پر یہاں سالوں کی دشمنیوں کا بدلہ لیتے وقت قاتل کچھ خاص باتوں کا خیال رکھتے۔ مقتول کے چہرے کا نشانہ نہیں لیا جاتا تھا تاکہ اس کے آخری دیدار کے وقت لواحقین مقتول کا چہرہ دیکھ سکے۔اگر قاتل نے مقتول کو کسی ایسے مقام پر قتل کر دیا ہو جہاں لاش کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو قاتل لاش کی تب تک حفاظت کرتے جب تک ان کو یہ تسلی نہ ملتی کہ لاش لواحقین تک پہنچ جائے گی۔

کئی بار خواتین کی وجہ سے دشمن کو اپنا بدلہ لینے کا نادر موقع ملتا مگر اس کے باوجود موقع چھوڑ جاتا کیونکہ کئی واقعات ایسے بھی ہیں جب کوئی دشمن گھیرے میں آجاتا اسی موقع پر خاتون خطرے کے شکار شخص کے سامنے کھڑی ہوئی تو ایسے موقعوں پر خواتین کے تقدس کو مدنظر رکھ کر مارنے کی کوشش کرنے والا پیچھے ہٹ جاتا تھا۔

پشتون معاشرے بالخصوص قبائلی معاشرے میں تربور ولی کلچر بہت مضبوط ہے۔ تربور کی لغوی معنی تو چچازاد کے ہیں لیکن یہ پشتون معاشرے میں کئی چیزوں کے تعین کے لئے بہت بڑا لفظ ہے۔تربور جہاں ایک طرف بہت قریبی رشتہ ہیں وہیں دوسری طرف رقابت کا بہت بڑا نشان۔تربور ولی کو رشتہ داری اور دشمنی کا ایک وسیع پیمانہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

تربور ولی کی مثبت اور منفی دونوں پہلو ہوتے ہیں کیونکہ جہاں ایک طرف مشکلات کے وقت تربور تمہارے پاس کھڑے ہوں تو وہی دوسری طرف آپسی رنجشوں کے دوران تربور ایک دوسرے کے انتہائی سخت حریف ثابت ہوتے ہیں اور جب کبھی ایسا موقع آتا ہے تو فریق دوئم کا بنیادی نقطہ یہ ہوتا ہے کہ وہ میرا تربور ہے۔ یعنی اگر وہ پیچھے ہٹتا ہے تو یہ ان کے لیے بہت بڑی شکست یا پھر شرم کی بات ہوگی۔

تربور ولی کے ان منفی پہلوؤں کی وجہ سے آپسی رنجشیں دشمنیوں میں بدل جاتی ہیں مگر کئی بار ایسے بھی ہوا ہے کہ کسی مقتول کے خاندان والے کسی دوسرے کے خاندان کے ساتھ معاملات خراب ہوئے تو وہ تربور جو مقتول کے خاندان والوں کی وجہ سے گھر میں دبک کر بیٹھا ہے مگر اپنے تربور (جن کو اسی نے مارا ہوتا ہے) کی مشکل میں ان کے گھر چلا گیا اور کہا کہ آپ نے مجھے مارنا ہے یا چھوڑنا ہے مگر یہ وقت آپسی دشمنی کے بجائے پرائے سے نمٹنا ہے۔

یقیناً یہ چیزیں قابلِ فخر نہیں ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ ہم وہ تصویر دیکھیں جو حقیقت میں ہے جو قبائلی یا پشتون کلچر کا حقیقی حصہ ہے نہ کہ باہر سے مسلط کردہ اس نئے کلچر کو قبائل یا پشتونوں کا وہ کلچر مانا جائے جو عمران خان یا ان کے پس پردہ کردار ثابت کرنے کی کوشش کررہےتھے یا کررہے ہیں۔

گزشتہ چند تحاریر میں اس بات کا تذکرہ کر چکا ہوں کہ قبائلی معاشرے میں موجود روایات کی وجہ سے دشمنیوں کی اوسط پاکستان کے دیگر علاقوں سے کم تھیں ۔ اسی مضبوط سسٹم کی وجہ مقامی سطح پر چوریاں نہ ہونے کے برابر تھیں، میرا اپنا گاؤں قریباً تین چار ہزار نفوس پر مشتمل ہے مگر اس وقت چھوٹے موٹے تنازعات کے علاؤہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے جس میں خون ریزی شامل ہوں۔

جس معاشرے میں اپنے اس دشمن کی لاش کا خیال رکھا جاتا رہا ہو جنہوں نے ان کے پیاروں کو ان سے جدا کیا، جنہوں نے ان کے لخت جگر کو گولیوں سے بھونا ہو وہ کسی کی موت کے بعد اس کی تذلیل کریں گے؟ وہ لوگ جن کے کلچر کا بنیادی نچوڑ ہی مرنے والے کو عاجز ماننا ہے، وہ انسانیت کی تذلیل کسی صورت نہیں کر سکتے تھے مگر آج کے قبائل کا نام سامنے آتا ہے تو سرکٹی لاشوں کی بات ہوتی ہے، تشدد اور نفرت کا ذکر ہوتا ہے مگر میرا ماننا ہے کہ یہ سب کچھ درآمد کیا گیا جس کو قبائل بالخصوص اور پشتون بالعموم بھگت رہےہیں۔

بدقسمتی سے پندرہ بیس سالوں کی تکالیف کے بعد بھی یہاں کے لوگوں کے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل کھیلا جارہا ہے جس کی وجہ سے آج کا قبائلی ریاست سے دور ہوتا جارہا ہے اور اعتماد کا ایک ایسا خلاء پیدا ہو چکا ہے جس کو پر کرنے کے لیے ایک عرصہ لگے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp