گوادر: عمان سے پاکستان تک

جمعہ 8 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گوادر صوبہ بلوچستان میں پاکستان کی جنوب مغربی ساحلی پٹی پہ خلیج فارس کے داخلی راستے پر واقعہ ہے۔ اس خطے کو دنیا کی اہم تجارتی گزر گاہ کے طور پر تصور کیا جاتا ہے۔ جبکہ پاک چین اقتصادی راہداری کے قیام سے اس علاقے کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

بات کی جائے اگر گوادر کے محل وقوع کی، تو گوادر کراچی کے مغرب، ایران پاکستان سرحد کے مشرق جبکہ اومان کے شمال مشرق میں واقع ہے۔

’ہوا کا دروازہ‘

لفظ گوادر دراصل بلوچی زبان کے دو الفاظ ’گوا‘ اور ’در‘ سے مل کر بنا ہے، جس کے معنی ’ہوا کا دروازہ‘ ہے۔

 گوادر کی تاریخ چار ہزار سال قبل مسیح سے بھی پرانی ہے۔ اس علاقے میں میسوپوٹیمیا اور سندھ کی قدیم تہذیب کے آثار بھی ملتے ہیں، جبکہ یہ خطہ ہمیشہ سے سمندری تجارت کے لیے ساز گار رہا ہے۔

مکران کی وجہ تسمیہ؟

نادر میر کی لکھی کتاب تاریخ کی شطرنج کی بساط پر  گوادر میں درج ہے کہ سکندر اعظم برصغیر سے واپس یونان جا رہا تھا تو اس کی بحری فوج کے ایک جنرل نے اپنا جہاز مکران کی بندرگاہ پر روک دیا۔ اس جنرل نے علاقے کے ماحول کو خوشگوار پایا اور دیکھا کہ خطے کے لوگوں عموماً مچھلی کا استعمال کھانے میں زیادہ کرتے ہیں یوں اس علاقے کا نام ماہی خوراں پڑا  جو بعد میں بدل کر مکران ہو گیا-

جنرل سیلوکس نیکٹر

 مورخ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ اس خطے میں سکندر اعظم کے جنرل سیلوکس نیکٹر نے علاقے میں اپنی حکومت قائم رہی جبکہ حضرت عمر بن خطاب کے دور اقتدار میں 643 عیسوی میں مکران پر مسلمان حاکموں نے اپنی ریاست قائم کی اور بعد ازاں مختلف مسلمان رہنماؤں نے اس خطے پر اپنی ریاست کی جڑوں کو مضبوط کیا۔

پرتگالیوں کا قبضہ

16 ویں صدی عیسوی میں پر تگالیوں نے مکران کے متعدد علاقوں پر قبضہ کر لیا جن میں گوادر بھی شامل تھا۔1581ء میں پر تگالیوں نے اس علاقے کے 2 اہم تجارتی شہروں پسنی اور گوادر کو لوٹنے کے بعد جلا کر خاکستر کر دیا۔

مقامی قبائل کے درمیان رسا کشی

نادر علی کی کتاب میں مقامی قبائل کے درمیان بھی رسا کشی کی داستان درج ہے۔ نادر لکھتے ہیں کہ علاقہ متعدد مقامی حکمرانوں کے درمیان بھی تختہ مشق بنا رہا اور کبھی اس پر بلیدی حکمران رہے اور کبھی اس پر رندوں نے حکومت کی، کبھی ملک حکمران بن گئے تو کبھی گچکیوں کو حکومت ملی۔

تاہم زیادہ تر حکمرانی میں بلیدی اور گچکی ہی رہے ہیں۔ جب گچکیوں کی حکمرانی خاندانی اختلاف کی وجہ سے کمزور پڑی تو خان آف قلات میر نصیر خان اوّل نے اس پر قبضہ کیا۔

سعد بن احمد کا خان آف قلات کو خط

کئی اہم کتب آرٹیکلز اور دیگر تحریروں میں بھی یہ واقع درج ہے کہ 1783 ء میں مسقط کے بادشاہ سلطان بن احمد کا اپنے بھائی سعد بن احمد سے جھگڑا ہوا جس پر سلطان بن احمد نے خان آف قلات میر نصیر خان کو خط لکھا جس میں اس نے یہاں آنے کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ خان نے نہ صرف سلطان کو فوری طور پر آجانے کو کہا بلکہ گوادر کا علاقہ اور وہاں کی آمدن بھی لامحدود وقت کے لیے سلطان کے نام کر دی۔

پاکستان سے الحاق

 پاکستان کی 1947ء میں ایک الگ ریاست کے طو ر پر معرضِ وجود میں آنے کے بعد مکران، خاران، لسبیلہ اور خان آف قلات نے کے سرداروں نے ان ریاستوں کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔

عمان سے گوادر کی خریداری

گوادر کی جغرافیائی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی حکومت نے گوادر کی ملکیت عمان سے پاکستان منتقل کر نے کے لیے سلطان آف عمان سعد بن تیمور سے باقاعدہ درخواست کی کہ گوادر میں پاکستان کا حصہ بنا دیا جائے۔

4 سال کے تبادلہ خیال کے بعد پاکستان نے عمان سے گوادر کا علاقہ 30 لاکھ ڈالرکے عوض خرید لیا۔

گوادر باقاعدہ پاکستان کا حصہ بن گیا

وزیر اعظم فیروز خان نون نے 7 ستمبر 1958 کو ریڈیو پاکستان کے ذریعے قوم سے خطاب کے دوران گوادر کی ملکیت پاکستان کا حصہ بنے کی خبر سنائی اور یوں 8 دسمبر 1958 کو گوادر باقاعدہ طور پر پاکستان کا حصہ بن گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp