آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیس میں سپریم کورٹ نے 32صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔
فیصلہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے تحریر کیا۔
چیف جسٹس بندیال نے تفصیلی فیصلے میں لکھا ہے کہ بینچ میں ان کی موجودگی پر وفاقی حکومت کا اعتراض جج کے بارے میں قرآنی حکم کی خلاف ورزی ہے۔ ’غیر جانبداری سے انصاف کی فراہمی۔‘ یہ ایک ایسا اصول ہے جو ججز کے حلف میں بھی موجود ہے۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ 3ججز پر اٹھائے گئے اعتراضات کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں۔ بینچ پر اعتراض کی درخواست اچھی نیت کے بجائے بینچ کے رکن کو ہراساں کرنے کے لیے دائر کی گئی۔
فیصلے کے مطابق ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز قانون کو سپریم کورٹ غیر آئینی قرار دے چکی ہے۔
’وفاقی حکومت نے متعدد آئینی مقدمات سے ججز کو الگ کرنے کیلئے درخواستیں دائر کیں، آڈیو لیکس کمیشن میں بھی ایسی ہی مفادات کا ٹکراؤ اور تعصب جیسی بے سروپا بنیادوں پر درخواست دائر کی گئی‘۔
فیصلے میں قرار دیا گیا کہ آڈیو لیکس کیس کے خلاف اعتراض کی درخواست دائر کرنے کا مقصد چیف جسٹس پاکستان کو بینچ سے الگ کرنا تھا۔ وفاقی وزراء نے مختلف مقدمات سننے والے ججز کے خلاف بیان بازی کی۔ وفاقی وزراء نے صوبائی اسمبلیوں میں انتخابات کے خلاف کیس میں عوامی فورمز پر اشتعال انگیز بیانات دیے۔ وزرا کا اشتعال انگیز بیانات کا مقصد وفاقی حکومت کے ایجنڈے کو تقویت دینا تھا۔
تفصیلی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کے ان مقدمات کو انتہائی تحمل اور صبر سے برداشت کیا۔ کسی عدالتی فیصلے پر حتمی عدالتی فیصلے کی پابندی لازم ہے، فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے پر آئین میں نتائج دیے گئے ہیں۔
فیصلے کے مطابق متفرق درخواست عدلیہ پر حملہ ہے،اس لیے متفرق درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ بینچ کے ججز پر اعتراض کے لیے دائر کی گئی متفرق درخواست مذموم مقاصد کیلئے دائر کی گئی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیو لیکس کیس میں بینچ پر حکومتی اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے محفوظ فیصلہ سنا دیا۔
سپریم کورٹ مبینہ آڈیو لیکس کیس میں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے بینچ پر حکومتی اعتراض مسترد کر دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں ججز پر اعتراض کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیا۔
واضح رہے کہ پی ڈی ایم حکومت نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر اعتراض اٹھایا تھا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجربنچ نے مبینہ آڈیو کیس پر سماعت کے بعد 6 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
مبینہ آڈیو لیکس پر پی ڈی ایم حکومت نے جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی انکوائری کمیشن بنایا تھا۔ کمیشن میں چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نعیم افغان بلوچ اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق بھی شامل تھے.
انکوائری کمیشن نے ایک ہی سماعت کی تھی کہ صدر سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن عابد زبیری کی جانب سے آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل اور کارروائی چیلنج کی گئی تھی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ انکوائری کمیشن چیف جسٹس کی مشاورت سے بنایا جاتا ہے اور پی ڈی ایم حکومت نے کمیشن بناتے وقت چیف جسٹس سے مشاورت نہیں کی جس پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے 5رکنی لارجربنچ تشکیل دیا۔
جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بینچ کا حصہ تھے۔
وفاقی حکومت نے بینچ کے 3ججز چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس منیب اختر پر اعتراض اٹھایا تھا۔ حکومت کا موقف تھا کہ تینوں ججز کا کیس سننا مفادات کا ٹکراؤ ہے، اس لیے وہ مقدمے سے الگ ہوجائیں۔ 5 رکنی بینچ نے 6 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے حکومتی اعتراض مسترد قرار دیا۔ مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججز پر اعتراض عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے۔
فیصلہ محفوظ ہونے سے پہلے کیا ہوا؟
آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پہلے ان آڈیوز پر ججز کی تضحیک کی پھر کہا اب ان آڈیوز کے سچے ہونے کی تحقیق کروا لیتے ہیں، واہ کیا خوبصورت طریقہ ہے اور عدلیہ کے ساتھ کیا انصاف کیا ہے۔
جسٹس منیب اختر بولے؛ یہ تو بڑا آسان ہوجائے گا کسی بھی جج کو کیس سے ہٹانا ہے تو اس کے نام لیکر آڈیو بنا دو، کیس سے الگ ہونے کے پیچھے قانونی جواز ہوتے ہیں۔ یہ آپشن اس لیے نہیں ہوتا کوئی بھی آکر کہہ دے جج صاحب فلاں فلاں کیس نہ سنیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بولے؛ وفاقی حکومت اسی لیے اس معاملے کو انجام تک پہنچانا چاہتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آڈیوز کس نے پلانٹ کی ہیں۔ کیا حکومت نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ یہ کونے کر رہا ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کمیشن کے ذریعے اس معاملے کو بھی دیکھے گی، کالز کیسے ریکارڈ کی گئیں کمیشن کے ذریعہ تمام عوامل کا جائزہ لیا جائے گا، ابھی تو یہ معاملہ انتہائی ابتدائی سطح پر ہے، وفاقی حکومت کے مطابق یہ آڈیوز مبینہ آڈیوز ہیں، وفاقی حکومت کا یہی بیان دیکھا جانا چاہیے، کابینہ کے علاوہ کسی وزیر کا ذاتی بیان حکومت کا بیان نہیں۔
مزید پڑھیں
اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ اگر وزیر خزانہ کوئی بیان دے تو وہ بھی حکومت کا نہ سمجھا جائے؟ اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ کوئی معاملہ اگر سپریم کورٹ کے تمام ججز سے متعلق نکل آئے پھر یہ نظریہ ضرورت پر عمل ہوسکتا ہے۔ اگر تمام ججز پر سوال ہو تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ اب کسی نے تو سننا ہے۔
اٹارنی جنرل نے اپنا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ کوئی شخص اپنے مقدمے میں جج نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ میری درخواست منظور کر لیں تو بینچ کی تشکیل نو ہو سکتی ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی قوانین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جج اپنے زیر سماعت رہنے والے مقدمات سے متعلق اخباری رپورٹیں نہیں پڑھتے۔
جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ بینظیر کیس میں بینچ پر اعتراض نہیں ہوا تھا، کیا اس کیس میں ججز نے ٹھیک فیصلہ نہیں کیا جن کی کالز ٹیپ ہوئی؟ جس پر اٹارنی جنرل بولے؛ وفاقی حکومت کا کیس تعصب کا نہیں مفادات کے ٹکراؤ کا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال بولے؛ کیا یہ اعتراض صرف جوڈیشل کاروائی پر بنتا ہے یا انتظامی امور کی انجام دہی پر بھی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے یاد دلایا کہ بینظر بھٹو کیس کی سماعت کرنے والے 7 میں سے 4 ججز کے فون ٹیپ کیے گئے تھے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کیس میں صدر کے اختیارات کا سوال تھا۔
قبل ازیں حکومتی موقف کے ضمن میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ وہ پہلے بینچ کی تشکیل پر دلائل دینا چاہیں گے۔ جس پر چیف جسٹس بولے؛ آپ کس پوائنٹ پر بات کرنا چاہیں گے؟ چیف جسٹس پاکستان ایک آئینی عہدہ ہے، مفروضہ کی بنیاد پر چیف جسٹس کا چارج کوئی اور نہیں استعمال کر سکتا، اس کیس میں چیف جسٹس دستیاب تھے جنہیں کمیشن کے قیام پر آگاہ نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کے علم میں نہیں تھا اور کمیشن بنا دیا گیا۔ اٹارنی جنرل کی جانب سے گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھ کر سنایا جس پر چیف جسٹس بولے؛ آپ عدالتی فیصلوں کے حوالے پڑھنے سے پہلے قانون کو سمجھیں۔
’کیا آپ اس پوائنٹ پر جا رہے ہیں کہ ہم میں سے تین ججز متنازعہ ہیں۔ اگر اس پر جاتے ہیں تو آپ کو بتانا ہوگا کہ آپ نے کس بنیاد پر فرض کر لیا کہ ہم میں سے تین کے مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ میں چاہو گا آپ دوسروں سے زیادہ اہم معاملہ پر توجہ دیں جوعدلیہ کی آزادی کا ہے۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آئین میں اختیارات کی تقسیم ہے۔ سپریم کورٹ کا کوئی بھی معاملہ ہو، چیف جسٹس نے حل کرنا ہے۔
اس موقع پر جسٹس منیب اخترنے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا؛ آپ کی درخواست تو بینچ کی تشکیل کے خلاف ہے۔ پہلے ججوں کے بینچ سے الگ ہونے کا معاملہ طے ہو گا تو بات آگے بڑھے گی۔
اٹارنی جنرل نے کیمشن کے ٹی او آر پڑھے جس میں چیف جسٹس کی ساس کی کال کا بھی ذکر کیا، جس پر جسٹس منیب اختر بولے؛ کیا وفاقی حکومت نے یہ طے کر لیا ہے کہ یہ آڈیوز مصدقہ، اہم اور قابل اعتبار ہیں۔ وزیروں نے ان آڈیوز پر پریس کانفرنسیں کر دیں۔
اٹارنی جنرل نے آڈیو لیکس کمیشن کے ٹی او آرز پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ لیک آڈیوز میں ایک چیف جسٹس کی ساس سے متعلق ہے، جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا آپ کا اس وقت کیس یہ ہے کہ آڈیوز بادی النظر میں درست ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل بولے؛ وفاقی حکومت نے اس معاملہ پر حقائق جاننے کے لیے ابھی صرف کمیشن بنایا ہے۔
اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے مزید دریافت کیا کہ کیا وفاق کو علم نہیں کہ آڈیوز مصدقہ ہیں یا نہیں؟ سینیئر کابینہ رکن نے تو اس پر پریس کانفرنس بھی کر دی، کیا یہ درست نہیں کہ وزیر داخلہ ان آڈیوز پر پریس کانفرنس کر چکے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا قانونی طور پر درست ہے جسے آڈیوز کی حقیقت کا نہیں پتا وہ بینچ پر اعتراض اٹھائے۔ میں آپ کی درخواست کے قابل سماعت ہونے کا پوچھ رہا ہوں، وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کیوں کی، کیا ایسی لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جا سکتا؟ ایسے بیان کے بعد تو اس وزیر کو ہٹا دیا جاتا یا وہ مستعفی ہوجاتا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بولے؛ کیا ایک وزیر کا بیان پوری حکومت کا بیان لیا جا سکتا ہے؟ میرے علم میں نہیں اگر پریس کانفرنس کسی نے کی۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اتنے اہم معاملہ پر کابینہ کی اجتماعی ذمہ داری سامنے آنی چاہیے تھی۔ وزیر اگر چائے پینے کا کہے تو الگ بات، یہاں بیان اہم معاملہ پر دیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ عدالت یہ دیکھے کہ وزیر داخلہ کا بیان 19 مئی سے پہلے کا ہے یا بعد کا۔ جسٹس منیب اختر بولے؛ سوال یہ ہے کہ یہ آڈیوز کس نے پلانٹ کیں۔ کیا حکومت نے اس حوالے سے تحقیقات کے لئے کوئی قدم اٹھایا ہے؟
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ کیا حکومت نے اپنے وسائل استعمال کر کے پتا کیا کہ آڈیوز ریکارڈ کہاں سے اور کیسے ہو رہی ہیں۔ کون یہ سب کر رہا ہے؟ ٹوئٹر ہینڈل کا پتا کریں کہ وہ ملک یا بیرون ملک سے آپریٹ ہو رہا ہے۔
بار ایسوسی ایشن کے وکیل شعیب شاہین کے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے قیام کے ٹی او آرز میں آڈیو ٹیپ کرنے والے کا ذکر نہیں۔ ساری مبینہ آڈیوز پنجاب الیکشن سے متعلق سوموٹو کے بعد آنا شروع ہوئیں۔ نہیں پتا یہ آڈیوز ریکارڈنگ کس نے کی۔ تمام آڈیوز ایک ہی ہیکر کے زریعہ منظر عام پر لائی گئیں۔
شعیب شاہین کا موقف تھا کہ وفاقی حکومت الیکشن کیس میں ایک فریق ہے وہی کمیشن تشکیل دے رہی ہے۔ ٹی او آرز میں آڈیوز ریکارڈ کرنے والے کا ذکر ہوتا پھر تو بات تھی، یہاں عدالت کے سامنے ایک آئینی نوعیت کا معاملہ ہے۔ یہاں سوال مقننہ کی عدلیہ میں مداخلت کا ہے۔ اس بینچ نے کسی کے حق میں یا خلاف فیصلہ نہیں دینا بلکہ ایک تشریح کرنی ہے۔
اس سے قبل سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے درخواست گزار حنیف راہی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم ججوں کو توہین عدالت میں فریق نہیں بنا سکتے۔
ریاض حنیف راہی نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کی 22 مئی کی کارروائی کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔ انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم امتناع کے باوجود آڈیو لیکس کمیشن کی کاروائی توہین عدالت ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کا فیصلہ کرنا آپ کا کام نہیں وہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے۔ ہم توہین عدالت میں ججوں کو فریق نہیں بناتے۔ آپ پہلے اپنی درخواست پر اعتراض ہٹائیں۔