اکڑ کر مت چلنا

اتوار 10 ستمبر 2023
author image

حماد حسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وہ سب سے پہلے میاں نواز شریف کو اپنی وزارت عظمیٰ کی ’دیوار‘ سمجھے اور روایتی سیاسی کھیل کو اس خوفناک جنگ میں تبدیل کر دیا کہ اس کا سیاسی حریف نواز شریف تو کیا کہ اس کے گھر کی خواتین تک بھی گالم گلوچ، الزامات اور بہتان طرازی سے محفوظ نہ رہ سکیں۔

اور تو اور کینسر جیسے مہلک مرض کی شکار اور آخری سانسیں لیتی نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کی بیماری کا مذاق اڑانا اور جملے کسنا اس وقت تک جاری رہا جب تک وہ لحد میں اتری نہیں اور موت نے پناہ نہیں دی۔

عمران خان کبھی یہ نہیں دیکھتے کہ میرے مخالف کی اخلاقی پوزیشن کیا ہے.

وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ اس معاشرے کی تہذیبی اور اخلاقی حدود و قیود کیا ہیں۔ اور وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ میں خود کیا ہوں، وہ صرف یہ دیکھتا بلکہ پوچھتے ہیں کہ تم میرے ساتھ ہو یا میرے مخالف۔

اور پھر جو ساتھ ہو تو وہ زلفی بخاری ہی کیوں نہ ہو، عامر کیانی، شیخ رشید اور شہباز گل ہی کیوں نہ ہوں، حتیٰ کہ فرح گوگی، عثمان بزدار اور جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال ہی کیوں نہ ہوں، لیکن خان صاحب اجلے پن کا ایک بے بنیاد پروانہ جاری کرتے اور پھر ایک شخصیت پرست غول اسے تھامنے کو جھپٹ پڑتا۔

لیکن اگر کوئی خان صاحب کی حکم عدولی یا بالفاظ دیگر مخالفت کرتا تو چور، ڈاکو، لٹیرا، غدار، لفافہ اور کرپٹ کی غلاظت اس پر انڈیل دیتے اور پھر حقائق سے بے خبر وہی شخصیت پرست غول تمسخر اڑانے بھی نکل آتا۔

اسی تکبر، انا پرستی، تضحیک اور سنگدلی نے عمران خان سے وہ احساس چھین لیا تھا جسے مکافات عمل کا خوف کہتے ہیں۔

لیکن پھر ہوا کیا؟؟؟

3 بار کے منتخب وزیراعظم نواز شریف کو ایک رعونت کے ساتھ اے سی اتروانے کی دھمکی دیتے رہے اور اب خود عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی صبح و شام عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہیں کہ میرے شوہر پر رحم کھا کر اے سی لگوانے کی اجازت دی جائے۔

عمران خان مریم نواز کے بیرک میں کیمرے لگواتے رہے اور اب ایڈیشنل اینڈ سیشن جج اٹک شفقت اللہ خان کی رپورٹ کیمروں سے شروع ہو کر کیمروں پر ختم ہی ہو جاتی ہے۔

عمران خان نواز شریف اور آصف زرداری کو چور، مولانا فضل الرحمان کو ڈیزل کہہ کر طنز کا نشانہ بناتے رہے لیکن چوری کا مستند اور واحد عدالتی فیصلہ صرف اور صرف عمران خان ہی کے نصیب میں نا صرف لکھا تھا بلکہ جیل کی صورت میں اس فیصلے کی سزا بھی بھگت رہے ہیں۔

عمران خان جنرل عاصم منیر کو پہلے ڈی جی آئی ایس آئی کے منصب سے ہٹانے اور پھر انہیں آرمی چیف بننے سے روکنے کے لیے لانگ مارچ بھی کرتے رہے، لیکن آج عمران خان کی اہلیہ ان کے لیے جیل میں ایک اے سی کی بھیک مانگ رہی ہیں۔

جبکہ جنرل عاصم منیر وہاں بیٹھے ہیں جہاں کا صرف سوچتے ہوئے بھی عمران خان اور ان کے سیاسی آرکیٹکٹ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

جس ایماندار اور معزز جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ صاحبہ سمیت عدالتی کٹہروں میں صبح و شام کھڑا کر کے عمران خان ذلت آمیز طریقے سے نکالنے اور گھر بھیجنے پر بضد تھے وہی جسٹس فائز عیسیٰ آنے والے شب و روز میں عمران خان کے لیے امید اور خوف کی علامت بنے ہوئے ہیں۔

واضح امکان ہے کہ عمران خان ملک کے منصف اعلیٰ کے سامنے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے اور سزا و جزا کا فیصلہ اسی منصف کے قلم سے پھوٹے گا جس قلم کو عمران خان ایک تذلیل کے ساتھ چھیننے کے درپے تھا۔

شہباز شریف کی بیماری کا مذاق اڑاتے اور جیل میں اذیتیں دے کر خوش ہوتے ہوئے عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی صاحبہ اب قید کی سزا کاٹتے اپنے شوہر کی بیماری اور کم ہوتے ہوئے وزن کا دکھ آنسوؤں کے ساتھ بتاتی اور رحم کی التجائیں کرتی نظر آتی ہیں۔

سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ایک جونیئر جج محترمہ زیبا چوہدری تک کو دھمکیاں دینے والے عمران خان پر وہ وقت آیا کہ وہ ایک اور جونیئر جج ہمایوں دلاور کی عدالت میں ایک ملزم کی حیثیت سے کھڑے تھے اور پھر اسی عدالت نے انہیں 3 سال قید کی سزا سنا کر ملزم سے مجرم بنا دیا۔

عمران خان فریال تالپور سے مریم نواز تک اپنے مخالفین کی بہنوں، بیٹیوں کو تذلیل کے ساتھ اٹھانے کا حکم دیتے، جیلوں میں بند کراتے اور پولیس کے ذریعے سارا سارا دن عدالتی رہداریوں میں گھماتے رہتے، لیکن آج اسی عمران خان کی اہلیہ اور بہنیں عدالتوں کے چکر کاٹتی نیب میں پیش ہوتی ہیں اور گھنٹوں کسی بینچ پر بیٹھی ’آواز‘ کا انتظار کرتی ہیں۔

سیاسی مخالفین کے ساتھیوں کی نقلیں اتارنا اور تضحیک کا نشانہ بنانا تو خان صاحب کا معمول تھا۔ کبھی بھرے جلسے میں محمود خان اچکزئی کی چادر کو طنز کا نشانہ بنایا جاتا تو کبھی خواجہ آصف کے ٹیلی فون کال کی نقل، اور کبھی رانا ثنااللہ کی مونچھوں پر طنزیہ بات کی جاتی۔

لیکن آج عمران خان کے اپنے ہی قریبی ساتھی حتیٰ کہ چاروں سابق وزرائے اعلیٰ پرویز خٹک، عثمان بزدار، محمود خان اور جام کمال نا صرف ان کے شدید مخالف ہو چکے ہیں بلکہ عمران خان کی سیاست سے بھی زیادہ ان کے ذاتی معاملات کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔

یہ تھی وہ سفاک سیاست اور متکبر رویہ جو عمران خان کو سرعت کے ساتھ لے ڈوبا۔

اگلے دن بابر اعوان جیل میں عمران خان کو مل کر آئے تو ایک اچھی خبر دے دی کہ جیل میں عمران خان قرآن پاک کو ترجمے کے ساتھ پڑھتے اور گہرائی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ یقیناً ایک خوش آئند بات ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ نصف شب کی تنہا ساعتوں میں عمران خان آنسوؤں اور عاجزی کے ساتھ قرآن پاک پر جھکے اپنے رب سے ہمکلام ہوں اور یہ آیت سامنے آئے کہ

لا تمش فی الارض مرحا

(ترجمہ: زمین پر اکڑ کر مت چلنا)

اور عین اسی لمحے عمران خان کے ذہن کا زاویہ بھی مڑے اور قبولیت کا دروازہ بھی کھلے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp