قائد ہم شرمندہ ہیں

بدھ 11 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ تحریر ابتدائی طور پر گزشتہ برس شائع کی گئی تھی، جسے آج قائداعظم محمد علی جناح کی برسی کی مناسبت سے وی نیوز کے قارئین کے لیے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔


آج بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی 76ویں برسی ملی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح کا دنیا کا سب سے بڑا پورٹریٹ کس نے بنایا اور وہ کہاں ہے؟

قائداعظم محمد علی جناح کا 8 ہزار مربع فٹ بلند قامت پورٹریٹ پاکستانی مصور لیاقت علی خان نے بنایا تھا اور وہ گزشتہ 22 برس سے کہیں نصب کیے جانے کے انتظار میں وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کی غفلت اور لاپروائی کے باعث انتہائی مخدوش حالت میں لاوارث پڑا، مصور لیاقت علی خان کی حب الوطنی اور قائداعظم سے والہانہ عقیدت کا مُنہ چِڑا رہا ہے۔

قائداعظم کے پورٹریٹ کا عکس جسے 500 ٹکڑوں پر بنایا گیا ہے

مصور لیاقت علی خان کون ہیں؟

1970 کے اوائل میں پشاور یونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس میں لیاقت علی خان کی قابلیت کے چرچے عام تھے۔ امتحانات قریب تھے کہ ایک دوست نے انہیں بتایا کہ سب کی رول نمبر سلپس آگئی ہیں جبکہ تمہاری سلپ نہیں آئی۔ لیاقت علی خان بھاگم بھاگ کلرک آفس پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ آپ نے امتحانات کی فیس (120 روپے) جمع نہیں کروائی، اس لیے آپ کا داخلہ نہیں بھیجا گیا، ابھی وقت ہے فیس جمع کرادیں رول نمبر سلپ آ جائے گی۔

لیاقت علی خان نے ایک بار پھر اپنی محسن اور شعبہ فائن آرٹس کی سربراہ پروفیسر جمیلہ زیدی کے کمرے کا رخ کیا۔ لیکن ایک اِک قدم من من سے زیادہ بھاری لگ رہا تھا کہ ایک ریڑھی بان کے بیٹے کی ماہانہ فیس وہ پہلے ہی معاف کرا چکی تھیں۔ پروفیسر جمیلہ زیدی جو لیاقت علی خان کے فن کو پہچان گئی تھیں، انہوں نے اسے منہ لٹکائے دیکھا تو وجہ پوچھی؟ جواب ملا، میڈم گھر میں بھی کوئی اتنی قیمتی شے نہیں جسے بیچ کر 120 روپے مل سکیں، پلیز میرا سال ضائع ہونے سے بچا لیں۔

پشاور یونیورسٹی 1971: شعبہ فائن آرٹس کے طالب علم پروفیسر جمیلہ زیدی کے ہمراہ

پروفیسر جمیلہ زیدی نے پرس ٹٹولا تو 60 روپے نکل آئے، انہوں نے لیاقت علی خان کو ساتھ لیا اور کلاس روم میں سب سے کہا کہ وہ مل کر لیاقت کی فیس جمع کروائیں تاکہ اس کا قیمتی سال ضائع نہ ہو، فوراً باقی 60 روپے بھی اکٹھے ہو گئے۔ معاملہ اس خوش اسلوبی سے طے ہوا کہ لیاقت علی خان نے امتحانات میں نہ صرف ٹاپ کیا بلکہ 360 روپے کا وظیفہ بھی پالیا۔

لیاقت علی خان ایک دن انہونی کرے گا؟

1949 کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے لیاقت علی خان نے میٹرک کے بعد فلمی پوسٹرز (cinema hoardings) بنا کر والد کا ہاتھ بٹایا اور اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا۔ پشاور یونیورسٹی میں اساتذہ کہا کرتے تھے کہ یہ کوئی بڑا کام یا انہونی ضرور کرے گا۔ 1972 میں کمرشل آرٹس کا ڈپلومہ مکمل کرنے پر لیاقت علی خان کو ابوظہبی میونسپلٹی میں ملازمت مل گئی۔ وہاں 30 برس خدمات انجام دیں۔ اسی دوران دبئی کے حکمران شیخ زاید بن سلطان النہیان کا 512 مربع میٹر بلند پورٹریٹ بنایا جو 1997 سے اماراتی محل کے سامنے نصب ہے۔

لیاقت علی خان نے 30 برس میں شاہی فیملی کے لگ بھگ 1000 سے زائد چھوٹے بڑے پورٹریٹ بنائے۔ تاہم زاید بن سلطان النہیان کے 512 مربع میٹر بلند پورٹریٹ نے دبئی میں لیاقت علی خان کے فن کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ شیخ زاید بن سلطان النہیان نے لیاقت علی خان کو شاہی محل میں ملاقات کے لیے بلایا اور اماراتی پاسپورٹ دینے کی پشکش کی لیکن لیاقت علی خان نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ اب وہ پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں۔ جہاں وہ پاکستانی بچوں کو اپنا فن منتقل کریں گے۔

مصور لیاقت علی خان، شیخ زاید بن سلطان النہیان کو ان کی پینٹنگ دکھا رہے ہیں

’اے قائداعظم تیرا احسان ہے تیرا احسان‘

لیاقت علی خان کہتے ہیں کہ اماراتی پاسپورٹ نہ لینے پر ان کی سخت انکوائری کی گئی لیکن اس کا نتیجہ صرف اور صرف پاکستانیت نکلا۔ وہ پاکستان لوٹنے سے پہلے قائد اعظم محمد علی جناح کا دنیا کا سب سے بڑا پورٹریٹ بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ قائد اعظم کا 2830 مربع فٹ کا پورٹریٹ بنائیں گے۔

اسی دوران انہیں اطلاع ملی کہ بھارت میں اندرا گاندھی کا 4 ہزار مربع فٹ کا پورٹریٹ بنایا جا چکا ہے۔ اس پر لیاقت علی خان نے اعلان کیا کہ وہ قائداعظم کا 8 ہزار مربع فٹ کا پورٹریٹ بنائیں گے۔

لیاقت علی خان ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے

وزیر خارجہ سرتاج عزیز کا وعدہ جو وفا نہ ہوا

لیاقت علی خان قائداعظم کے پورٹریٹ کی تیاری میں شبانہ روز مصروف تھے کہ انہیں پاکستان آنا پڑا، 1999 کے وسط کی بات ہے کہ ان کی ملاقات اس وقت کے وزیر خارجہ سرتاج عزیز سے ہوئی۔ انہیں قائد کے پورٹریٹ کا پتا چلا تو انہوں نے لیاقت علی خان کو یقین دلایا کہ آپ جلد پورٹریٹ پاکستان بھجوائیں تاکہ اسے کسی اہم مقام پر نصب کیا جائے۔

لیاقت علی خان نے 7 ماہ کی قلیل مدت میں یہ کارنامہ انجام دیا کہ قائداعظم کا 8 مربع فٹ کا پورٹریٹ تیار تھا۔ ذاتی طور پر 40 ہزار درہم (33 لاکھ 33 ہزار 1 سو 4 روپے) خرچ کرکے پورٹریٹ تیار کیا گیا تھا۔

شومئی قسمت اس دوران پاکستان کا عنانِ اقتدار نوازشریف سے چھن کر آمر جنرل پرویز مشرف کے پاس آ چکا تھا۔ سیاسی افرا تفری سے قطع نظر لیاقت علی خان نے پلائی ووڈ کے 500 ٹکڑوں پر مشتمل 2970 کلو گرام وزنی پورٹریٹ ذاتی خرچ پر8 مارچ 2001 کو حکومت پاکستان کے نام اسلام آباد بھجوادیا تھا۔

’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘

لیاقت علی خان پر امید تھے کہ پورٹریٹ 23 مارچ 2001 کو اسلام آباد میں کسی مناسب مقام پر نصب کر دیا جائے گا، لیکن 14 اگست بھی گزر گئی 11 ستمبر بھی خالی ہاتھ رہی اور 25 دسمبر 2001 کو بھی پورٹریٹ کی قسمت نہ جاگ سکی۔

آشفتہ سر لیاقت علی خان مٹی کی محبت کا قرض اتارنے پاکستان لوٹ آئے، انہوں نے پورٹریٹ کے بارے میں جاننا چاہا تو پتا چلا کہ وہ کہیں کھو گیا ہے۔ در در کی خاک چھاننے کے بعد پتا چلا کہ پورٹریٹ وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ لیکن ادارے کا کوئی شخص بتانے کو تیار نہ تھا کہ پورٹریٹ کہاں ہے؟

گردش زمانہ گواہ ہے کہ نوازشریف کے بعد میر ظفراللہ خان جمالی، چوہدری شجاعت حسین، شوکت عزیز، میاں محمد سومرو، یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف کے بعد میر ہزار خان کھوسو وزارتِ عظمیٰ کا مقام پا چکے تھے لیکن قائداعظم کے پورٹریٹ کو اس کا مقام نہ مل سکا۔

لیاقت علی خان کہتے ہیں کہ 14 اکتوبر 2006 کو دبئی میں ان کی ملاقات سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے بھی ہوئی تھی، انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ ہم قائداعظم کا پورٹریٹ ضرور نصب کروائیں گے۔ ان کے شوہر آصف علی زرداری، صدر پاکستان رہے، ان کے دو ’بھائی‘ یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف وزیراعظم پاکستان رہے لیکن کوئی بھی شہید بی بی کا وعدہ وفا نہ کر سکا۔

’ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں‘

2013 میں نوازشریف دوبارہ اقتدار میں آئے تو لیاقت علی خان کی کاوشیں اتنا رنگ ضرور لائیں کہ انہیں ان کی گمشدہ تخلیق ’پورٹریٹ‘ تک رسائی مل گئی۔ لیکن یہ ایک جاں گزا لمحہ تھا کہ پورٹریٹ کے بکسوں سے مینڈک نکل رہے تھے جبکہ کئی ٹکڑے بارش کے پانی سے خراب ہو چکے تھے۔

پیرانہ سالی کے شکار لیاقت علی خان نے ہمت نہ ہاری اور خراب اور لاپتا ٹکڑے دوبارہ سے ٹھیک کرکے اور نئے بنا کر متعلقہ حکام کے حوالے کر دیے تاکہ انہیں کہیں نہ کہیں نصب کر دیا جائے۔ لیاقت علی خان نے حکام کو پیش کش کی کہ وہ اپنا گھر فروخت کرکے پورٹریٹ نصب کرنے کا خرچ اٹھا سکتے ہیں۔

لیاقت علی خان کے زور دینے پر انہیں بتایا گیا کہ اسلام آباد کی فضا پورٹریٹ کو کھلے عام نصب کرنے کے لیے موزوں نہیں، پورٹریٹ کو کراچی میں قائد اعظم کے مزار کے سامنے نصب کیا جائے گا۔ پھر کچھ عرصے بعد بتایا گیا کہ پورٹریٹ کا قد مزارِ قائد سے بلند ہے اس لیے وہاں بھی نصب نہیں کیا جا سکتا۔

مجھے پورٹریٹ واپس دے دیا جائے: لیاقت علی خان

حوادث زمانہ ہے کہ ایک بار پھر نوازشریف کے بعد شاہد خاقان عباسی، جسٹس ریٹائرڈ ناصرالملک، عمران خان اور شہبازشریف کے بعد انوارالحق کاکڑ وزارت عظمیٰ پر براجمان ہیں لیکن شہر اقتدار میں موجود ہونے کے باوجود قائداعظم کے پورٹریٹ کا کوئی والی وارث نہیں۔

لیاقت علی خان کا کہنا ہے کہ تمام حیلے بہانوں کے باوجود پورٹریٹ کو اسلام آباد میں موجود کسی بھی بلند وبالا عمارت میں لگایا جا سکتا تھا لیکن کوئی بھی قائداعظم کے ساتھ مخلص نہیں، سبھی اقتدار کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔

لیاقت علی خان ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے

لیاقت علی خان جو اب ذیابیطس سمیت دیگر امراض کا شکار ہیں اور ایک آنکھ کی بینائی بھی کھو چکے ہیں، آج بھی کوہاٹ میں بچوں کو آرٹس کی تعلیم دینے میں مشغول ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ وہ بیورو کریسی کے سرخ فیتے سے مایوس ہو چکے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ان کا پورٹریٹ انہیں واپس کر دیا جائے تاکہ وہ ایام پیری میں اپنا علاج معالجہ اور خرچ اٹھا سکیں۔

وفاقی ترقیاتی ادارے کی غفلت اور لاپروائی

وی نیوز نے وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کے میڈیا ونگ سمیت متعدد شعبوں سے بارہا رابطہ کیا کہ قائداعظم کا پورٹریٹ کہاں اور کس حالت میں ہے؟ لیکن کوئی بھی واضح مؤقف دینے کو تیار نہیں تھا، سبھی ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال کر بری الذمہ ہونے کی تگ و دَو میں رہے۔ کسی کا کہنا تھا پرانی بات ہے میری پوسٹنگ نئی ہے اور کسی کا کہنا تھا کہ اس بارے میں صرف ’صاحب‘ ہی کچھ بتا سکتے ہیں۔

مصور لیاقت علی خان کے بتائے گئے مقام پر پہنچنے پر بھی ایک شعبے سے دوسرے شعبے میں جانے کا کہا گیا، دلچسپ بات یہ تھی کہ وفاقی ترقیاتی ادارے کے شعبہ انوائرمنٹ کے ایک ایسے ڈائریکٹر صاحب نے بھی ’پورٹریٹ‘ سے لاتعلقی کا اظہار کیا جن کے دفتر کے برآمدے میں ’پورٹریٹ‘ کو یوں کھلے عام پھینکا گیا ہے جیسے وہ کوئی نشان عبرت ہو۔

سی ڈی اے کے دفتر کے برآمدے میں پڑا قائداعظم کا پورٹریٹ

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا دنیا کا سب سے بڑا پورٹریٹ، حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت کا شکار ہو کر وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کی بھول بھلیوں کی نذر ہوچکا ہے۔ شہکار تخلیق کرنے والے 73 برس کے لیاقت علی خان گزشتہ 22 برس سے بیورو کریسی کے فرعونیت زدہ رویے سے بددل ہوکر شدید مایوسی اور مختلف امراض کا شکار ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ بہت ہوگئی اب پورٹریٹ انہیں واپس کر دیا جائے، تاکہ وہ اپنی زندگی میں اسے کہیں بھی نصب کرا سکیں۔

قائداعظم نے کہا تھا ’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘ بظاہر آج بھی انہی کھوٹے سکوں کا راج ہے، بانی پاکستان کا خستہ حال پورٹریٹ شکوہ کناں ہے کہ کیا قائداعظم کے 8 لاکھ مربع کلومیٹر کے وسیع و عریض ملک میں 8 ہزار مربع فٹ کے پورٹریٹ کی کوئی جگہ نہیں؟

قائداعظم کے 8 لاکھ مربع کلومیٹر کے وسیع و عریض ملک میں 8 ہزار مربع فٹ کے پورٹریٹ کی کوئی جگہ نہیں؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp