جب معروف کامیڈین لہری اپنے پہلے آڈیشن میں ‘ناکام’ ہو گئے

بدھ 13 ستمبر 2023
author image

سفیان خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

طنزو مزاح کے بادشاہ کی 11ویں برسی پرخصوصی تحریر

نوجوان کامیڈین لہری نے جب اپنا مشہور لطیفہ ’مریض ِ عشق‘  سنایا تو سننے والے کے چہروں پر ایک ہلکی سی بھی مسکراہٹ نہ آئی۔ وہ تلما کر تو رہ گئے کیونکہ وہاں موجود ہدایتکار اور کیمرا مین سب سپاٹ چہرے کے ساتھ کامیڈین لہری کو دیکھ رہے تھے۔ زندگی کے پہلے فلمی آڈیشن میں ایسا سلوک ہوگا یہ انہوں نے سوچا نہیں تھا۔   ’مریض عشق‘ ان کا وہ آئٹم تھا جو لہری جب جب اسٹیج پر آکر سناتے تو تماشائی ان کے منفرددلچسپ انداز و بیان کی وجہ سے لوٹ پوٹ ہوئے بغیر نہیں رہتے لیکن یہاں سب پر خاموشی کا راج تھا۔

لہری یعنی نوجوان سفیر اللہ صدیقی1955میں تھیٹر اور اسٹیج کی دنیاکے بے تاج بادشاہ تصورکیے جاتے۔وہ جہاں ون مین شو کرتے وہیں اسٹینڈ اپ کامیڈی کی وجہ سے بھی شہرت حاصل کرجاتے تھے۔ برجستہ اور بے ساختہ ایسے دلچسپ جملے ادا کرتے کہ سننے والا دیر تک ہنستا ہی رہتا۔ لہری نے ابتدا سے ہی طنزو مزاح میں مہذبانہ طرز عمل اختیار کیا اور یہی ان کا خاصہ تھا۔ کراچی کے مختلف اسٹیج ڈراموں میں اپنے فن کا اظہار کرتے جس کے بدلے انہیں ایک شوکے 30 روپے کی رقم مل جاتی جو نوجوان لہری کے لیے کافی تھی۔ اسی عرصے میں شادی ہوگئی تو احساس ہوا کہ یہ معاوضہ کم ہے۔ اسی لیے اِدھر اُدھر ہاتھ پیر مارنے شروع کیے۔

جس آڈیٹوریم میں لہری کامیڈی شو ز کرتے وہاں ایک دن ایک آرٹسٹ ابوشاد آدھمکا۔ لہری سے فرمائش کی کہ اُن کے ساتھ چلیں۔ بھارت سے ایک ہدایتکار او پی دتہ آیا ہوا اور قریبی اسٹوڈیو میں ایک فلم بن رہی ہے جس میں وہ انہیں کام دلانے کی اس نے سفارش کی ہے۔ لہری نے پہلے ٹالنے کی کوشش کی لیکن ابو شاد جیسے ضد پکڑے بیٹھا تھا۔ لہری کو بتایا کہ ہیروئن  شیلا رمانی ہیں جو اس دور کی مشہور اداکارہ تصور کی جاتیں۔ شیلا رمانی کے نام کے آگے ’ٹیکسی ڈرائیور‘ جیسی بھارتی فلم تھی۔

جب لہری نے فلم سے دور رہنے کی فرمائش کی۔

ہیروئن کا نام سن کر لہری نے یہی سوچا کہ چلو اسی بہانے شیلا رمانی کو قریب سے دیکھ لیں اور یو ں وہ ابوشاد کے ساتھ ہولیے۔ اسٹوڈیو کے قریب جب پہنچے تو لہری نے ابو شادکو روک کر کہا کہ دیکھو میں تو اسٹیج پر کام کرکے گزارہ کررہا ہوں کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ پروڈکشن کمپنی مجھے منتخب کرکے تمہیں نکال دے اور یوں تمہارے لیے  مالی مشکلات پیدا ہو جائیں۔ لہری نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ انہیں فلموں سے دور ہی رکھیں، اپنا نقصان نہ کریں۔ جس پر ابو شاد نے بتایا کہ دراصل فلم میں دو مزاحیہ کردار ہیں۔ ایک وہ کرلیں اور دوسرا وہ خود کرلے گا۔ یوں لہری صاحب مان گئے۔

آپ کھانا کھارہے ہوں اور میں کچھ بیچوں؟

جب وہ اسٹوڈیو پہنچے تو ڈائریکٹر، کیمرا مین اور دیگر اسٹاف زمین پر بیٹھ کر کھانا کھا رہا تھا۔ لہری صاحب کا تعارف کرایا گیاتوانتہائی بے زاری کا مظاہرہ کیا گیا۔ ڈائریکٹر نے کہا کہ کیا بیچتے ہومیاں؟  لہری نے برجستہ جواب دیا کہ دیکھیں جناب میں کچھ نہیں بیچتا۔ یہ عجیب سا لگتا ہے کہ آپ کھانا کھارہے ہوں اور میں کچھ بیچوں۔  لہری کے اس جواب پر وہاں بیٹھے افراد نے ایک دوسرے کو معنی خیز انداز سے دیکھا اور پھر کھاناختم کرکے لہری صاحب سے کہا کہ وہ اب کچھ سنائیں۔ جبھی لہری نے اپنا مشہور خاکہ ’مریضِ عشق‘ سنایا جس پر وہاں بیٹھے افراد کے تاثرات اور جذبات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ لہری کو احساس ہوگیا کہ وہ مسترد کردیے جائیں گے۔

لہری صاحب کو بتایا گیا کہ وہ دوسرے کمرے میں جا کر بیٹھیں اور پھر تھوڑی دیر بعد ان کا پتا نوٹ کرکے رخصت ہوجانے کا فرمان جاری ہوا۔ لہری صاحب کو یقین تھا کہ ان کا کسی صورت چناؤ نہیں ہوگا۔ 3دن بعد ان کے گھر پر پروڈکشن کمپنی سے ایک شخص آیا اور اُس نے خوشخبری سنائی کہ لہری صاحب منتخب ہوچکے ہیں۔ ان کا 3ہزار روپے کا ایک فلمی معاہدے پر دستخط کرایا گیا۔ اتنی بڑی رقم ملتے ہی لہری صاحب نے اس کمپنی کو خیرباد کہہ دیا جس کے پلیٹ فارم سے وہ اسٹیج شوز کرتے تھے۔

لہری کی پہلی فلم:

لہری صاحب کو 1956میں جس فلم میں پہلی بار شمولیت ملی وہ ’انوکھی‘ تھی۔ بھارتی اداکارہ شیلا رمانی دہرے کردار میں تھیں جبکہ جس شخص یعنی ابوشاد نے لہری صاحب کو اس فلم میں زور دے کر شامل کرایا تھا۔ وہ بھی اس تخلیق کا حصہ بنے۔ ہدایتکار شیخ نواز کی ’انوکھی‘ کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ اس کے مدھر گیتوں کی دھنیں حسن لطیف کے ساتھ تیمربیرن نے ترتیب دیں۔ تیمر بیرن 1935میں آئی فلم ’دیوداس‘ کے موسیقار تھے۔ یہی نہیں اسی فلم کے ذریعے احمد رشدی نے بطور اداکار اور گلوکار قسمت آزمائی۔

لہری کے لیے پہلی فلم ’انوکھی‘ میں کام کرنے کا تجربہ خاصا یادگار رہا۔ پہلا منظر عکس بند کرانے آئے تو کیمرا مین نے اُن سے پوچھا کہ کہیں انہیں کیمرے سے ڈر تو نہیں لگ رہا۔ جس پر لہری نے مسکرا کر کہا کہ وہ سینکڑوں جیتے جاگتے انسانوں کے درمیان پرفارم کرچکے ہیں یہ تو پھر بھی لوہے کا۔

فلم تو نہ چلی مگر لہری کام دکھا گئے!

لہری کا فلم میں کردار تو مختصر نوعیت کا تھا لیکن انہوں نے اس کے تمام تر فنی جزئیات کے ساتھ ایسا ادا کیا کہ ’انوکھی‘ کے بری طرح ناکام ہوجانے کے بعد لہری کی بے ساختہ اور برجستہ اداکاری کا ہرطرف چرچا تھا۔ ’انوکھی‘ کا ایک گیت ’گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے‘ تو آج تک ہر کسی کے ذہن میں محفوظ ہے۔

پہلی ہی فلم کی ناکامی کے بعد  لہری صاحب نے ہمت نہ ہاری چونکہ اسٹیج ڈراما کمپنی کی نوکری کو وہ چھوڑ چکے تھے اسی لیے سوچ لیا کہ اب فلموں کے ذریعے ہی زندگی کی گاڑی کھینچنا ہے۔ آنے والے دنوں میں بیداری، دل میں تم، جانِ بہاراور تیرے بغیر نمایاں رہیں۔ 1960میں فلم ’رات کے راہی‘ میں ریحانہ اور درپن کی جوڑی کے ساتھ لہری اور شمیم آرا سائیڈ ہیرو اور ہیروئن بنے۔ اس تخلیق نے زبردست کامیابی حاصل کی اور جس کے بعد ہرفلم میں لہری کی موجودگی ضروری ہوتی چلی گئی۔

لہری صاحب نے بیشتر فلموں میں ہیرو کے دوست کا کردار ادا کیا جو اپنی شوخ و شنگ طبیعت اور جملہ بازی کی وجہ سے ہر منظر میں فلم بینوں کو مسکرانے پر مجبور کردیتا۔ لہری صاحب نے کم و بیش دو سو سے زیادہ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ لہری صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کی کامیڈی میں کہیں بھی پھکڑ پن نہیں آتا۔ وہ جملوں کی ایسی کاری گری دکھاتے کہ سادے سے جملے کی ادائیگی میں ایک نیا پن اور لطف آتا۔

سب سے زیادہ نگار ایوارڈ:

لہری صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ انہوں نے بطور مزاحیہ اداکار سب سے زیادہ 12بار نگار ایوارڈز حاصل کیے۔ اور یہ فلمیں دامن، پیغام، کنیز، نہیں وہ نہیں، صاعقہ، لیلیٰ مجنوں، انجمن، دل لگی، آج اور کل،نیا انداز اور بیوی ہو تو ایسی نمایاں ہیں۔

سری لنکا میں 1983میں فلم ’نادانی‘ کی عکس بندی ہورہی تھی جب لہری صاحب کو پہلی بار فالج کا حملہ ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مختلف بیماریوں نے انہیں گھیرنا شروع کردیا۔بولنے میں تکلیف ہونے لگی تو عالم یہ ہوگیا کہ وہ صرف بستر کے ہی ہو کر رہ گئے۔ اور پھر 13ستمبر 2012کو پاکستانی فلموں کا یہ عظیم مزاحیہ اداکار خاموشی سے اس دنیا سے کوچ کرگیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp