سندھ حکومت نے گزشتہ ماہ کی 11 تاریخ کو اپنا پانچ سالہ دور مکمل ہونے کے بعد انتظامات نگران حکومت کے حوالے کیے اور یوں پاکستان پیپلز پارٹی کا 15 سال دور اقتدار منقطع ہوا۔
سندھ کی نگراں حکومت کی ڈور سابق جسٹس مقبول باقر کے حوالے کی گئی اور اپنے ابتدائی میڈیا کو دیے گئے بیانات سے انہوں نے یہ تاثر قائم کیا کہ آئین و قانون پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اپنی 10 رکنی نگراں کابینہ کے ساتھ نگراں وزیر اعلٰی سندھ نے کام شروع کیا اور حلف اٹھانے کے ایک ماہ بعد تک سب سے تیزی سے ہونے والا کام صوبے میں بڑے پیمانے پر تبادلوں کا ہے۔
کہاں کہاں کتنی تعداد میں تبادلے ہوئے؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نگراں سندھ حکومت کی سفارش پر بیورو کریسی میں 13 محکموں کے سیکریٹریز، 6 ڈویژنز کے کمشنرز، کراچی پولیس چیف، 8 ڈی آئی جیز، 31 ایس ایس پیز اور ایس پیز، اداروں کے سربراہان اور 27 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو تبدیل کیا گیا ہے۔ نگراں حکومت نے صوبے بھر کے 170 مختیارکاروں اور 38 سب رجسٹراروں کے تبادلے کیے۔
کیا تبادلے پیپلز پارٹی کے 15 سالہ سسٹم کو ختم کرنے کے لیے ہیں؟
ویسے تو پاکستان بھر میں الیکشن رول کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نگراں حکومتوں کو یہ انتظامی افسران کے تبادلوں کے احکامات دیتی ہے لیکن سندھ نگراں حکومت نے اوائل میں تو اس حکم کو منع کیا لیکن بعد ازاں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فہرستیں فراہم کردی گئیں جس کے مطابق تبادلوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
مزید پڑھیں
تبادلوں کے حوالے سے بہت سی باتیں گردش کر رہی ہیں ان کی سچائی جاننے کے لیے ایک پولیس آفیسر سے رابطہ کیا گیا تو سینئر پولیس افسر نے نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ بیوروکریسی میں تبادلے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر کیے جاتے ہیں لیکن ایک تاثر یہ تھا کہ سندھ میں نگراں سیٹ اپ کے آنے کے بعد پیپلز پارٹی کے 15 برس سے بنائے گئے سسٹم کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ نگراں سیٹ اپ کے آنے کے بعد سے ہی یہ خبریں گردش کرتی رہیں کہ سندھ کے اندر بہت بڑی تبدیلی کی جا رہی ہے۔ لیکن اب تک کے تبادلوں کو اگر دیکھا جائے تو ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، پولیس کی اگر بات کی جائے تو نگراں حکومت آنے کے بعد بھی اتنی بڑی تعداد میں تبادلوں کے باوجود ڈی آئی جی رینک کے 2 افسران ہیں جن کو پیپلز پارٹی کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ افسران پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت سے بہت زیادہ قربت رکھتے ہیں وہ افسران ابھی تک اپنی پوسٹوں پر موجود ہیں یہ سمجھنا کہ سسٹم کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے یا سسٹم کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو جب تک ان افسران کو ہٹایا نہیں جاتا نہیں لگتا کے سسٹم کو توڑنے یا ختم کرنے کی کوئی کوشش ہو رہی ہے۔ کیوں کے یہ وہ لوگ ہیں جو اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔
انکا مزید کہنا تھا کہ کچھ ایس ایچ اوز بھی ایسے ہیں جن کی پوسٹنگ مخصوص تھانوں میں ہی ہوتی ہے بہت ضروری سمجھا جائے تب ہی انکے تبادلے ہوتے ہیں اور یہ ایس ایچ اوز ابھی تک اپنے اپنے تھانوں میں ہی موجود ہیں یعنی انکے تبادلے نہیں ہوئے۔ اتنے بڑے پیمانے پر تبادلے ہونے کے باوجود وہ لوگ جو پاکستان پیپلز پارٹی کے قریب ہیں اگر انہیں نہیں ہٹایا گیا ہے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ یہ تبادلے بھی ماضی ہی کی طرح کے تبادلے ہیں۔