صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 6 نومبر کو عام انتخابات کرانے کی تجویز دے دی ہے۔
صدر مملکت عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد صدر کا اختیار ہے کہ وہ 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کے لیے تاریخ کا اعلان کرے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا چيف الیکشن کمشنر ، سکندر سلطان راجہ، کے نام خط
صدر مملکت نے 9 اگست کو وزیراعظم کے مشورے پر قومی اسمبلی کو تحلیل کیا، صدر مملکت pic.twitter.com/5W88oKxX62
— The President of Pakistan (@PresOfPakistan) September 13, 2023
خط میں کہا گیا ہے کہ عام انتخابات کی تاریخ دینا آئین کے آرٹیکل 58 (5) کے تحت صدر کا اختیار ہے، ’صدر نے 9 اگست کو وزیراعظم کی ایڈوائس پر اسمبلی کو تحلیل کیا‘۔
’ آرٹیکل 48(5) کے مطابق قومی اسمبلی کے لیے عام انتخابات قومی اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ کے 89ویں دن یعنی پیر 6 نومبر 2023 کو ہونے چاہییں‘۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی روز کرائے جانے پر اتفاق ہے، الیکشن کمیشن اس معاملے پر اعلیٰ عدلیہ سے رہنمائی لے۔
خط کے متن میں تحریر ہے کہ عام انتخابات کی تاریخ دینے کی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کی خاطر چیف الیکشن کمشنر کو مشاورت کے لیے بلایا تھا تاکہ طریقہ کار طے کیا جا سکے مگر چیف الیکشن کمشنر نے جوابی خط میں کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ وفاقی وزارت قانون و انصاف بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان جیسی رائے کی حامل ہے۔
خط کے متن میں لکھا گیا ہے کہ اگست میں مردم شماری کی اشاعت کے بعد حلقہ بندیوں کا عمل بھی جاری ہے، آئین کے آرٹیکل 51(5) اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 17 کے تحت یہ ایک لازمی شرط ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کو چاہیے ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کے لیے آئینی اور قانونی اقدامات یقینی بنائے۔
الیکشن کمیشن کا صدر کی دی گئی تاریخ پر انتخابات کرانےسے انکار، ذرائع
دوسری جانب ذرائع کے مطابق چیف الیکشن کمشنر نے موقف اختیار کیا ہے کہ عام انتخابات کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ اس وقت حلقہ بندیاں ہو رہی ہیں اور 6 نومبر کو انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل جب صدر مملکت نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ کر مشاورت کے لیے بلایا تھا تو انہوں نے جوابی خط میں موقف اختیار کیا تھا کہ انتخابات کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، اور ملاقات سے معذرت کر لی تھی۔
یہ بھی پڑھیں الیکشن کمیشن نے صدر عارف علوی کی دعوتِ مشاورت رد کر دی
واضح رہے کہ سابق وزیراعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر صدر مملکت عارف علوی نے 9 اگست کو اسمبلی کی تحلیل کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جس کے بعد آئینی طور پر ضروری ہے کہ 90 روز میں عام انتخابات کرائے جائیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی اور خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان نے اسمبلیاں تحلیل کی تھیں اور اس کے بعد مطالبہ کیا گیا تھا کہ 90 روز کی آئینی مدت میں انتخابات کرائے جائیں، مگر ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
صدرمملکت نے 20 فروری کو پنجاب اور خیبرپختونخوامیں 9اپریل کو انتخابات کرانے کااعلان کیا تھا۔ صدر مملکت نے الیکشن ایکٹ 2017 کی سیکشن 57 ایک کے تحت انتخابات کی تاریخ کااعلان کیا تھا۔
اُس وقت کی اتحادی حکومت نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ پورے ملک میں ایک ہی روز انتخابات نہ کرائے گئے تو ملک بحرانی کیفیت کی طرف چلا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں پاکستان میں عام انتخابات نومبر میں کیوں نہیں ہوسکیں گے؟ غیرملکی اخبار نے بتا دیا
چیف الیکشن کمشنر نے صوبوں میں عام انتخابات کے لیے حکومت سے فنڈز فراہمی کا مطالبہ کیا تو حکومت نے مختلف حیلے بہانوں سے فنڈز دینے سے صاف انکار کردیا تھا، جس کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں موقف اختیار کیا تھا کہ ہم انتخابات کرانے کے لیے تیار ہیں مگر حکومت کی طرف سے فنڈز فراہم نہیں کیے جا رہے۔ جس کی وجہ سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے 14 اپریل کو پنجاب میں انتخابات کرانے کے حکم پر عمل نہیں ہو سکا تھا۔
یہ بھی پڑھیں الیکشن کمیشن نے وزارت خزانہ سے عام انتخابات کیلئے اضافی 14 ارب مانگ لیے
حال ہی میں سپریم کورٹ نے پنجاب انتخابات التوا کیس کا فیصلہ سنایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صوبے میں 14 اپریل کو انتخابات کرانے کا حکم برقرار ہے۔
یہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ کا پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کا فیصلہ برقرار، الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست خارج
قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نئی حلقہ بندیاں ہیں، سابق اتحادی حکومت نے اپنے آخری دنوں میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نئی مردم شماری کی متفقہ طور پر منظوری دی ہے۔
نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد لازم ہو گیا ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد نئی حلقہ بندیوں کے بعد ہو۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کا اس پر موقف ہے کہ 30 نومبر کو حلقہ بندیوں کا عمل مکمل ہو جائے گا جس کے بعد سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے کا وقت دیتے ہوئے شیڈول کا اعلان کر دیا جائے گا۔