آرٹیفیشل انٹیلیجینس (اے آئی) یا مصنوعی ذہانت ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو انسانوں کی طرح سوچتی ہے۔ گو اس تیکنک میں شاندار کامیابی دور حاضر کی ہی پیشرفت ہے لیکن انسان کو یہ خیال آج نہیں بلکہ بہت پہلے آچکا تھا۔
قدیم یونانیوں کے افسانوں میں روبوٹس کے کردار ہوا کرتے تھے جبکہ دیگر قدیم اقوام میں بھی اس قسم کے تصورات ہوا کرتے تھے لیکن سنہ 1956 امریکی ریاست نیو ہیمپشائر کے شہر ہینوور کے ڈاٹ متھ کالج میں ایک کانفرنس کے دوران مصنوعی ذہانت کی اصطلاح باقائدہ طور پر وضع کی گئی تھی۔
مصنوعی ذہانت نے 20ویں صدی کے وسط میں اپنے آغاز کے بعد سے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ یہ سب اس خیال سے شروع ہوا کہ مشینوں کو ایسے کام انجام دینے کے لیے پروگرام کیا جا سکتا ہے جن کے لیے عام طور پر انسانی ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔
سنہ 1956
ہینور والی کانفرنس کے شرکا میں جان میکارتھی، مارون منسکی، اور کلاڈ شینن سمیت دیگر ماہرین موجود تھے۔ جان میکارتھی سب سے پہلے یہ اصطلاح دی اور انہیں بابائے مصنوعی ذہانت کہا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ اس فیلڈ میں ان کے ہم عصر ایلن ٹورنگ، مارون منسکی، ایلن نیویل، اور ہربرٹ اے کا بھی شاندار کردار ہے۔
60 کی دہائی
ماہر نظاموں کی تشکیل عمل میں لائی گئی جو انسانی ماہرین کی فیصلہ سازی کی صلاحیتوں کی نقل کرنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے تھے۔ یہ نظام ادویات اور مالیات جیسے شعبوں میں استعمال ہوتے تھے۔
70 کی دہائی
اے آئی کی ذیلی فیلڈ کے طور پر مشین لرننگ کو عروج ملا۔ مشین لرننگ الگورتھم اس لیے ڈیزائن کیے گئے تھے کہ مشینیں واضح طور پر پروگرام کیے جانے کے بجائے ڈیٹا سے سیکھیں۔
80 کی دہائی
یہ ایک مشکل دور تھا کیوں کہ تحقیق کے لیے فنڈنگ ختم اور میدان میں پیشرفت سست ہو گئی تھی۔ اس دور کو اے آئی موسم سرما کے نام دیا گیا۔
90 کی دہائی
یہ انٹرنیٹ کے عروج کا دور تھا جس نے اے آئی کے لیے نئے مواقع فراہم کیے۔ گوگل جیسے سرچ انجنوں نے تلاش کے نتائج کو بہتر بنانے کے لیے اے آئی الگورتھم کا استعمال کیا اور ای کامرس سائٹس نے صارفین کو مصنوعات تجویز کرنے کے لیے اس کا استعمال کیا۔
نیا ملینیم
ڈیپ لرننگ کا ظہور ڈیپ لرننگ مشین لرننگ کی ذیلی فیلڈ کے طور پر ابھرا۔ گہری سیکھنے کے الگورتھم کو مشینوں کو بڑی مقدار میں ڈیٹا سے سیکھنے کی اجازت دینے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا اور ان کا استعمال تصویر کی شناخت اور اسپیچ ریکگنیشن جیسی ایپلی کیشنز کو قوی کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔
آج آرٹییفیشل انٹیلیجینس ہر جگہ ہے۔ یہ سری اور الیکسا جیسے ورچوئل اسسٹنٹس کو فعال بناتی ہے اور بغیر ڈرائیور چلنے والی کاروں اور خودکار ڈرونز میں استعمال ہوتی ہے۔ اے آئی کا استعمال صحت کی دیکھ بھال، مالیات اور بہت سی دوسری صنعتوں کو بہتر بنانے کے لیے بھی کیا جا رہا ہے۔
الغرض اے آئی نے 20 ویں صدی کے وسط میں اپنے آغاز کے بعد سے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ اگرچہ بسااوقات اس کی پیشرفت سست بھی رہی لیکن مشین لرننگ اور ڈیپ لرننگ میں حالیہ پیشرفت نے اے آئی کے لیے نئی کامیابیاں اور مواقع پیدا کیے ہیں۔
ماضی میں اے آئی کے حوالے سے اتنی آگاہی نہیں تھی لیکن لیکن آج اس کی تکنیک اور استعمال کی وجہ سے یہ پوری دنیا میں مشہور ہو چکی ہے۔
ایک زمانے میں اے آئی صرف فلموں اور ٹی وی شوز میں استعمال ہوتا تھا لیکن آج اس کے استعمال کے شعبوں کی ایک وسیع رینج ہے اور اب یہ تکنیک اتنی مہنگی بھی نہیں رہی۔
اے آئی پر تحفظات
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال انسانیت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے لیکن کم ازکم ٹیکنالوجی کپمنیوں سمیت بہت سے ماہرین اس سے اتفاق نہیں کرتے اور انہیں یقین ہے کہ یہ ٹیکنالوجی انسانیت کے لیے بہت سودمند ہے۔
بہرحال اے آئی کا ارتقاء ابھی جاری ہے لیکن معاشرے پر اس کے اثرات کے بارے میں خدشات بھی ظاہر کیے جاتے ہیں جیسا کہ لوگوں کی ملازمتوں پر ضرب لگنے کا خدشہ اور پرائیویسی کے حوالے سے خدشات تاہم مناسب ضابطے اور اخلاقی تحفظات کے ساتھ اس تکنیک میں ہماری زندگیوں کو متعدد طریقوں سے بہتر بنانے کی صلاحیت ضرور موجود ہے۔