کیا قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس بھیجنے والے صدر ان سے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف لیں گے؟

جمعرات 14 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مئی 2019 میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی ایڈوائس پر سپریم جوڈیشل کونسل کو جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس بھجوانے والے صدر ڈاکٹر عارف علوی 17 ستمبر کو ایوانِ صدر میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے بطور چیف جسٹس ان کے عہدے کا حلف لیں گے۔
صدارتی ریفرنس میں الزام لگایا گیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی اہلیہ اور بچوں کی نام پر لندن میں 3 جائیدادیں ہیں جن کا ذکر انہوں نے اپنے اثاثوں میں نہیں کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سال اپریل میں سابق وزیر اعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر صدر علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف کیوریٹو ریویو واپس لینے کی منظوری بھی دی۔ سپریم کورٹ سے صدارتی ریفرنس مسترد ہونے کے بعد عمران خان کی وفاقی حکومت نے ایک کیوریٹو ریویو دائر کیا تھا جس کو واپس لینے کی منظوری صدر عارف علوی نے دی۔

عمران خان کا غلطی کا اعتراف

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پیشی کے دوران یہ اعتراف کیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس کہیں اور سے آیا تھا اور اس سے قبل وہ اس بات کا اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس دائر کرنا ان کی غلطی تھی۔

لیکن سابق وزیر اعظم کی اس غلطی نے مستقبل کے چیف جسٹس کو بہت اذیت میں مبتلا کیا اور وہ اپنے خلاف ریفرنس کی سماعتوں کے دوران کئی بار جذباتی ہوئے اور ان کی اہلیہ بھی آبدیدہ ہوئیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی عمران خان حکومت کے دوران اپنے میڈیا ٹرائل کی وجہ سے بھی بہت تکلیف میں مبتلا رہے اور ایک موقعے پر انہوں نے اس کا اظہار بھی کیا۔

اس سے قبل صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 21 جون کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس آف پاکستان تعیناتی کی منظوری دی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی 17 ستمبر 2023 سے اکتوبر 2024 تک پاکستان کے 29 ویں چیف جسٹس ہوں گے۔

ریفرنس سے بچ کر چیف جسٹس کے عہدے تک

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران ایک وقت ایسا بھی تھا جب یہ محسوس ہوتا تھا کہ شاید جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا بطور جج سپریم کورٹ سفر یہیں پر ختم ہو جائے گا لیکن وہ نہ صرف اس صدارتی ریفرنس کا کامیابی سے دفاع کر پائے بلکہ اب 17 ستمبر کو بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ حلف بھی لیں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی 13 اپریل سے سماعت کرنے والے بینچوں کا حصہ نہیں

 کیونکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سپریم کورٹ کے حکم امتناع کے بعد انہوں نے تحریری طور پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ چیف جسٹس، جسٹس عمر عطاء بندیال اس مقدمے کا فیصلہ دیں بصورت دیگر تمام بینچوں کی تشکیل غیر قانونی ہے۔

اس وجہ سے جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اس سال اپریل سے خود کو چیمبر ورک تک محدود کر لیا اور کسی بینچ میں شمولیت یا سربراہی نہیں کی۔ فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے معاملے پر جب جسٹس بندیال نے 9 رکنی بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو شامل کیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا جائے بصورت دیگر وہ اس بینچ کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp