سندھ میں حالیہ انتظامی تبادلوں سے ‘سسٹم’ کی بو آتی ہے؟

جمعہ 15 ستمبر 2023
author image

امتیاز بانڈے

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

حال ہی میں سندھ کے انتظامی ڈھانچے میں ہونے والی تبدیلی جس کے تحت ضلعی انتظامیہ اور پولیس ڈیپارٹمنٹ میں بڑے پیمانے پر تبادلے کئے گئے۔ اگر ایک نظر ڈالی جائے تو نظر آتا ہے کہ سندھ کو پیپلز پارٹی کی حکومت میں جس نظام کے تحت چلایا جا رہا تھا اس کی گرفت موجود نگراں حکومت میں بھی کمزور نہیں ہوئی۔ کیونکہ ان تبادلوں کوئی ایسا قابل ذکر نام نہیں ہے جس نے پی پی دور میں بھی پوسٹنگز نہ لی ہو ں۔ کچھ نام ایسے ہیں جن کو نیا کہا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی وہ ہیں جن کی پی پی کے دور حکومت میں کہیں نہ کہیں پوسٹنگ رہی تھی۔ جنرل الیکشن کا اعلان ہونے کے بعد عموما ان افسران کو تبدیل کر دیا جاتا ہے جو پچھلے دور حکومت میں متعین رہے ہوں کیونکہ عام تاثر یہی ہوتا ہے کہ یہ لوگ سیاست زدہ ہو چکے ہوتے ہیں جس میں اب کوئی ابہام بھی باقی نہیں رہا۔ ایک فطری بات ہے کہ کوئی پولیس افسر پچھلے کئی برسوں سے وزراء اور مشیران کو سر کہہ کر مخاطب کر تا رہا ہو وہ اس کے وزارت سے فارغ ہونے کے بعد بھی اسے سر ہی کہے گا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ آئندہ بھی یہ شخص وزیر یا مشیر بن سکتا اور بہتر یہی ہے کہ ایسے شخص سے بنا کر رکھی جائے۔

اصولی طور پر تو الیکشن کے دوران نئے افسران کی تعیناتی کے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ اس کی شہرت غیر متنازعہ اور غیر سیاسی ہو لیکن ان اصولوں پر عمل کم ہی ہوتا نظر آیا ہے۔ جو افسران سالوں سے سندھ میں چلنے والے مضبوط اور آرگنائزڈ سسٹم کے تحت کام کر رہے تھے انہیں ایک جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ پوسٹنگ دے دی گئی ہے اور اس پوسٹنگ میں بھی ان لوگوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ جس کا ثبوت حال ہی میں ڈی آئی جی سکھر تعینات ہونے والے نسبتا اچھی شہرت کے حامل ڈی آئی جی، عبدالحمید کھوسو کو آرڈر ہونے کے باوجود وہاں چارج لینے سے روک دیا گیا ہے اور بعد میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اٹھنے والے شور کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ کئی ایسے افسران ہیں جن کی سابقہ پوسٹنگ کے دوران ان پر سوالات اٹھتے رہے ہیں تاہم وہ دوبارہ اچھی پوسٹنگ لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

حیرت اس بات کی ہے کہ موجودہ نگران وزیر اعلی جیسے شخص کی موجودگی میں ایک ایسی پولیس افسر کو بھی پوسٹنگ مل گئی جن پرکراچی میں ایک کیس کی تفتیش کے دوران رشوت لے کر کیس خراب کرنے کا الزام لگا اور ریلوے پولیس میں تعنیاتی کے دوران بھی سرکاری فنڈز کی خرد برد کی انکوائری ہو چکی ہے ۔ کچھ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ریلوے پولیس والی انکوائری ان کے خلاف ثابت ہو رہی تھی لیکن پھر اس کے بعد کیا ہوا وہ آج تک ایک راز ہے۔

پاکستان میں ماضی کی سیاست کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی بھی الیکشن کے دوران ضلعی انتظامیہ جس میں اسسٹنٹ کمشنر سے لے کر کمشنر اور ایس ایچ او سے لے کر انسپکٹر جنرل تک کا کردار سب سے اہم سمجھا جاتا ہے اور انہی کا سہارا لے کر سیاسی پارٹیاں الیکشن کے نتائج تبدیل کرنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔

بدقسمتی سے سندھ میں پی پی کے دس سالہ دور حکومت میں تمام کی تمام ضلعی انتظامیہ بشمول شعبہ پولیس پر سیاست زدہ ہونے کے الزامات تسلسل سے لگتے رہے ہیں۔ اب نگران دور میں انتظامی ڈھانچے میں کوئی بڑی تبدیلی تو لائی جا نہیں سکتی بس ”کان ایک سمت سے چھوڑ کر دوسری سمت” سے پکڑ لیا جاتا ہے۔ اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کہ پی پی کے دور حکومت میں تمام کی تمام انتظامیہ ایک مضبوط سسٹم کے زیر اثر تھی جس میں مرکزی کردار ایک طاقتور ممبر پارلیمنٹ کا تھاجن کی مرضی کے بناء کسی بھی سرکاری افسرکسی اہم پوزیشن پر تعین نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر کچھ وزرا ء بھی اس سسٹم کا حصہ تھے۔

یہ تبادلے تو اعلی پیمانے پر تھے جن پر تنازعات چلتے رہیں گے اب دیکھنا یہ ہے کہ نچلی سطح پر گذشتہ کئی سالوں سے اسی طاقتور سسٹم سے جڑے ہوئے ایس ایچ اوز اور ایس ڈی پی اوز میں سے کون کون اپنی سیٹ بچانے میں کامیاب ہوتاہے۔ ان میں سے کچھ ایس ایچ اوز پچھلے چھے سے آٹھ سال تک ایک ہی تھانے میں یا پھر ایک تھانے سے دوسرے تھانے کا مزہ لوٹتے رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کی کارکردگی بہت شاندار تھی بلکہ ان میں سے بیشتر اسی”سسٹم“ کی پراڈکٹ ہیں جو انہیں پوسٹنگ کی ضمانت فراہم کرتا تھا۔ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس بڑے سسٹم کے بعد ایک چھوٹا ”سسٹم“ بھی موجود تھا، یہ سسٹم تھا بلکہ اب بھی ہے اور یہ سسٹم ہے”پیسہ پھینک تماشہ دیکھ“، یعنی پیسہ دو اور پوسٹنگ حاصل کرو۔

نگرا ں وزیر اعلی اسی صوبے کی اعلی عدالت میں اور پھر پاکستان کی اعلی ترین عدالت میں جسٹس کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں اورسندھ میں چلنے والے”سسٹم“ سے بخوبی واقف بھی ہوں گے۔ان تبادلوں کی منظوری بھی یقیناً انہی کے دفتر سے دی گئی ہے لیکن پولیس افسران کی ایک جگہ سے دوسری جگہ پوسٹنگ پر ان کی جانب سے بھی کوئی قابل ذکر اعتراض دیکھنے میں نہیں آیا جب کہ انہوں نے وزارت اعلی کا چارج لیتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ کسی دباؤمیں نہیں آئیں گے اور اگر ایسا محسوس کیا تو وزارت اعلی کے چھوڑ دیں گے۔لیکن ان کے زیر نگرانی ہونے والے ان تبادلوں سے عیاں ہوتا ہے کہ ان فیصلوں میں وہ کتنے شریک ہیں؟ ۔ اس ملک کی تاریخ رہی ہے کہ کسی بھی الیکشن کے نتائج پہلے سے ہی معلوم ہو جاتے ہیں اس لئے اس بار بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔ سیاسی وفادار یاں رکھنے والے افسران، وہ چاہے ضلعی انتظامیہ کے ہوں یا پولیس کے، جنہیں مستقبل میں بھی بہتر پوسٹنگ کی امید ہو، کس سے وفاداری نبھائیں گے یہ کوئی ایسا مشکل سوال نہیں کہ جس کا جواب کسی کو معلوم نہ ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امتیاز بانڈے سابق پولیس افسر ہیں۔ وہ جب اپنے تجربے کی روشنی میں مختلف سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں تو یہ محض تجزیہ نہیں بلکہ ایک ماہر فن کی قیمتی رائے ہوتی ہے۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp