پچھلے 10 دنوں میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں تقریبا 36 روپے کی کمی ہوئی ہے۔ پاکستانی روپیہ 5 ستمبر کو ریکارڈ نچلی سطح پر گر گیا تھا، اس ہفتے اوپن مارکیٹ میں 300 فی امریکی ڈالر سے نیچے آ گیا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ڈالر کی قدر میں یہ کمی وقتی ہے یا آنے والے دنوں میں روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مزید مضبوط ہوگا؟
اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے ریٹ میں اتنی کمی کیسے ہوئی؟
ماہرین معیشت اور کرنسی ڈیلرز اس کمی کی بڑی وجہ بڑے شہروں میں غیر قانونی کرنسی ڈیلرز اور ڈالرز کی اسمگلنگ کے خلاف کارروائی کو قرار دے رہے ہیں۔ کرنسی ڈیلرز کے مطابق اس کارروائی کے بعد سے ڈالرز بڑی تعداد میں پاکستان کے انٹربینک اور اوپن مارکیٹوں میں واپس آچکے ہیں۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان کے مطابق اس حکومتی کارروائی کے بعد سے ایکسچینج کمپنیز 15 سے 20 ملین ڈالرز روزانہ کی بنیاد پر اسٹیٹ بینک کو سرنڈر کر رہی ہیں۔
’اس کارروائی سے پہلے غیر قانونی ایکسچنج کمپنیوں کے مافیا نے ہمارے کاروبار کو پوری طرح جکڑ لیا تھا۔ یہ مافیا ہماری ایکسچینج کمپنیوں کے باہر دھڑلے سے کھڑے ہو کر ڈالرز خرید رہا تھا اور 90 فیصد ڈالرز بلیک مارکیٹ ڈیلرز کے پاس جا رہے تھے، جس سے ہماری زرمبادلہ کی سپلائی کم ہو رہی تھی‘۔
پاکستان کے بڑے شہروں میں کرنسی کا غیرقانونی کاروبار کرنے والے عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ پشاور کی 450 سے زائد دکانوں پر مشتمل یادگار بازار کی کرنسی مارکیٹ جو پاکستان کی تیسری بڑی کرنسی مارکیٹ ہے، 7 ستمبر سے بند پڑی ہے۔ بعض لوگوں کو وہاں سے گرفتار کیے جانے کی اطلاعات بھی ہیں۔
ملک بوستان حالیہ کارروائی کا سارا کریڈٹ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو دیتے ہیں۔ ان کے مطابق انہوں نے حکام کے ساتھ اسلام آباد میں ہونے والی ایک میٹنگ میں غیر قانونی کرنسی ڈیلرز کے معاملے کو فوری طور پر جنرل عاصم منیر تک پہنچانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اس میٹنگ میں قانون نافذ کرنے والے اور سیکیورٹی اداروں کے لوگ بھی شامل تھے۔ ان کے مطابق اس کے نتیجے میں ہی ایک ٹاسک فورس بنائی گئی تھی جوغیر قانونی مارکیٹ کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔
ماہرمعیشت ڈاکٹر اقدس افضل اس حالیہ کریک ڈاؤن کو اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل کا اقدام سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’یہ کریک ڈاؤن اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل ہی کی سوچ ہے اور اب جس طرح کا غیر قانونی منی ایکسچینجز کے خلاف کریک ڈاؤن نظر آ رہا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ مستقبل میں کسی کو اس طرح کے کام کی اجازت ملے گی‘۔
یاد رہے کہ اس سال 19 جون کو وزیراعظم پاکستان نے اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل کے قیام کی منظوری دی تھی جس کا مقصد سرمایہ کاروں کی سہولت کے لیے ’سنگل ونڈو‘ کے طور پر کام کرنے، تمام سرکاری محکموں کے درمیان تعاون قائم کرنے، اور پراجیکٹ ڈویلپمنٹ کی تیز رفتار ترقی کو ممکن بنانا ہے۔
کیا آنے والے دن روپے کے لیے مزید اچھے ہوں گے؟
سوال یہ ہے کہ کیا آنے والے دنوں میں بھی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مزید مضبوط ہو گا یا ابھی جو ٹرینڈ نظر آ رہا ہے وہ عارضی ہے؟
ڈاکٹر اقدس افضل سمجھتے ہیں کہ روپے کی قدرمیں اضافے کا رجحان برقرار رہے گا اور ڈالر مزید نیچے آئے گا۔
’میرےخیال میں ڈالر مزید گرے گا اور روپے کی قدر میں آنے والے دنوں میں مزید بہتری ہوگی‘۔
کچھ ایسے ہی خیالات ملک بوستان کے بھی ہیں، ان کے مطابق ڈالر کی قدر میں مزید کمی ہوگی۔ جس طرح اس وقت مارکیٹ کے حا لات ہیں انہیں امید ہے کہ وہ اس ماہ 400 سے 500 ملین ڈالرز سٹیٹ بینک کو سرینڈر کریں گے۔
لیکن سینئر صحافی خرم حسین نے اپنے حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ حالیہ کریک ڈاون کے بعد ڈالر کی قدر میں جو کمی دیکھی جا رہی ہے وہ عارضی ہے۔ اور یہ غیر یقینی ثابت ہوگی۔
’پچھلے سال بھی ایسا ہی ہوا جب اسحاق ڈار نے روپے کو 200 تک گرانے کی کوشش کی۔ اس کوشش کے بعد جنوری میں بڑے پیمانے پر روپے کی قدر میں کمی آئی جس نے ان کی تمام کوششوں کو خاک میں ملا دیا تھا‘۔
ڈاکٹر ساجد امین خرم حسین سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں بھی اس وقت مارکیٹ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ وقتی ہے اور اس طرح کی صورتحال 5،4 ماہ پہلے بھی تھی جب ڈالر 270 کے قر یب ٹریڈ کر رہا تھا۔
’اس وقت کریک ڈاؤن کی وجہ سے سٹاک کلیرنس ہو رہی ہے۔ اور یہ صورتحال عارضی ہےاور ایسا ماضی میں بھی دیکھنے کو ملا ہے جب ڈالر کا ریٹ کچھ نیچے آنے کے بعد دوبارہ پہلے سے زیادہ اوپر گیا‘۔
روپے کی قدر بحال کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟
ڈاکٹر ساجد سمجھتے ہیں کہ سب سے اہم یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت پائی جانے والی سیاسی بے یقینی کو ختم کیا جائے۔
’الیکشن کمیشن کو الیکشن کے حوالے سے کسی ٹائم لائن کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ اس حوالے سے مارکیٹ سے قیاس آرائیاں ختم ہوں۔ انتخابات سے قبل معاشی استحکام حاصل کرنے کی کوشش ناقابل عمل نظر آتی ہے۔ ہم نے ماضی قریب میں بھی ایسا ہی طریقہ ناکام ہوتے دیکھا ہے جب ہم نے آئی ایم ایف کے پاس جانے میں تاخیر کی تھی کیونکہ ہم نے سب سے پہلے معیشت کو مستحکم کرنے اور دوست ممالک سے ذخائر بنا کر روپے کو مستحکم کرنے کی کوشش کی تھی جس کا نتیجہ روپے کی قدر میں کمی، نہ رکنے والی مہنگائی اور آئی ایم ایف کے ایک اور پروگرام کے قبل از وقت ختم ہونے کی صورت میں سامنے آیا تھا‘۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر ساجد کے خیال میں حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک کے درمیان شرح کے فرق کو 1.25 فیصد سے کم رکھنے کی شرط کے حوالے سے بھی بات کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف خرم حسین نی اپنے حالیہ مضمون میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے روپے کی سپلائی کے معاملات کو دیکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کے مطابق 2017 کے بعد سے اسٹیٹ بینک کی جانب سے نوٹ چھاپنے کی رفتار بھی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ بنی ہے۔ ان کے مطابق اب اس رفتار میں کمی ہو رہی ہے لیکن یہ کمی بہت سست رفتاری سے ہو رہی ہے۔
ملک بوستان یہ سمجھتے ہیں کہ مافیا کے خلاف حالیہ ایکشن جاری رہنا چاہیے۔
’پاکستان اس وقت ایک اعتبار سے حالت جنگ میں ہے اور جنگ کے دوران آنکھیں بند نہیں کرنا ہوتیں۔ جو کارروائی آرمی چیف نے شروع کی ہے اس کا دائرہ مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ڈالرز کی اس غیر قانونی تجارت کے ساتھ ساتھ اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کی بھی ضرورت ہے۔ یہ ساری اسمگلنگ ڈالرز میں ہوتی ہے جس کی وجہ سے ڈالر کی طلب میں اضافے کی وجہ سے روپے کی قدر گرتی ہے، اس کو روکیں گے تو ڈالر اور نیچے آئے گا‘۔
اسٹیٹ بینک کا کردار
ڈاکٹر ساجد یہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کو زیادہ بہتر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
’ابھی مارکیٹ میں جو بھی ہو رہا ہے اس میں آپ کو وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کا کوئی کردار نظر نہیں آرہا اور جو بھی ایکشن نظر آ رہے ہیں وہ قانون نافذ ادا کرنے والے اداروں کی طرف سے نظر آ رہے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کو مارکیٹ کے ساتھ زیادہ بہتر کمیونیکیشن کی ضرورت ہے۔
اسٹیٹ بینک کی اسٹریٹجک کمیونیکیشن غیر ضروری ڈالر کی خریداری کو کم کرنے، استحکام کو یقینی بنانے اور مارکیٹ میں اعتماد پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے‘۔