چیف جسٹس عمر عطاء بندیال اپنے بارے میں قائم تاثر پر کس قدر فکر مند؟

جمعہ 15 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

روزانہ کوریج کرنے والے صحافیوں کو ایک شخص کے نام کے ساتھ چیف جسٹس لکھنے کی عادت ہو جاتی ہے شاید وہ شخص خود بھی چیف جسٹس کہلوانے، مخصوص پروٹوکول اور عزت و تکریم کے عادی ہو جاتے ہوں گے لیکن پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب روایت کے مطابق سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر 1 میں ان صاحب کی محض لٹکی ہوئی ایک تصویر رہ جاتی ہے۔

آج جسٹس عمر عطاء بندیال کا بطور چیف جسٹس آف پاکستان آخری ورکنگ ڈے تھا، وکلاء بطور چیف جسٹس ان کے کردار کی تعریف کر رہے تھے اور ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کر رہے تھے تو چیف جسٹس نے غالب کا یہ مصرع پڑھا:

’دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘

جس سے ایک تاثر یہ ملا کہ شاید ان کو اپنے عوامی تاثر کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔

جسٹس بندیال کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا

جسٹس بندیال کو اپنے دور میں چہار جانب سے تنقید ہی کا سامنا رہا لیکن ان میں ایک مثبت خوبی یہ ہے کہ وہ تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔ میڈیا، وکلاء، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں اور سب سے بڑھ کر ان کے اپنے ساتھی جج صاحبان جسٹس بندیال پر تنقید کرتے نظر آئے جس کو انہوں نے نہ صرف برداشت کیا بلکہ جاتے جاتے غالب کا مصرع پڑھ کر لوگوں کو یہ بھی بتا دیا کہ ان کو اپنے عوامی تاثر کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔

جسٹس بندیال کے تہنیتی کلمات جو زبان زدعام ہوئے

عمر عطا بندیال نے اپنے عہدے کے آخری دن بھی مقدمات کی سماعت کے دوران ’گڈ ٹو سی یو‘ کہا۔ 9 مئی کو جب عمران خان کو گرفتار کیا گیا اور ملک میں بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے تو 11 مئی کو چیف جسٹس بندیال نے 2 گھنٹے کے اندر عمران خان کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

جب عمران خان عدالت میں پیش ہوئے تو جسٹس بندیال نے کہا، ویلکم خان صاحب اور ’گڈ ٹو سی یو‘، جس کے بعد جسٹس بندیال کو خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ ایک نامزد ملزم کے لیے ایک چیف جسٹس ایسا کیسے بول سکتے ہیں لیکن اس کے بعد انہوں نے اپنے تہنیتی کلمات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے دیگر سیاستدانوں اور وکلاء کو بھی گڈ ٹو سی یو کہنا شروع کر دیا۔

اسی طرح آج کمرہ عدالت نمبر 1 کی درمیان والی کرسی پر اپنے آخری روز بھی وکلاء کو ’گڈ ٹو سی یو‘ کہا، گزشتہ سے پیوستہ روز اپنے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں انہوں نے اپنے تہنیتی کلمات کے بارے میں ہونے والے منفی پروپیگنڈا بارے بھی وضاحت دی۔

جسٹس بندیال کے چہرے پر مسکراہٹ

جسٹس بندیال ایک دھیمے مزاج کے چیف جسٹس ہیں، تنقید کو برداشت کرتے ہیں اور کئی موقعوں پر ان کی عدالت میں ان پر سخت تنقید بھی کی گئی لیکن ان کے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ برقرار رہتی ہے جو آج بھی ویسی ہی تھی۔ انہوں نے الوداعی پیغامات پر وکلاء کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں بھی آپ کے لیے دعا گو ہوں۔

آخری فیصلہ عمران خان کے حق میں

چیف جسٹس بندیال نے اپنے آخری ورکنگ ڈے نیب قانون ترامیم پر فیصلہ سنانے کا اعلان کیا۔ فیصلے کا وقت 12:15 بجے مقرر کیا گیا، کمرہ عدالت نمبر ایک جو ایسے متوقع بڑے فیصلوں کی صورت میں صحافیوں اور وکلاء سے بھر جاتا ہے، آج بھی بھر گیا۔

روزانہ کوریج کرنے والے صحافی مقدمے پر بحث کے دوران ہی سمجھ جاتے ہیں کہ کیا فیصلہ آنے والا ہے اور اس پہ بحث بھی جاری تھی کہ اعلان ہوا کہ فیصلہ 12:30 بجے سنایا جائے گا لیکن پھر مزید آدھا گھنٹہ تاخیر کے بعد ایک بجے نقیب نے آواز لگائی کہ کورٹ آگئی ہے۔

جس کے بعد کمرہ عدالت کا دروازہ کھلا اور سفید شیروانیوں اور جناح کیپس میں ملبوس 3 عدالتی اہلکار اندر آئے جنہوں نے کرسیوں کو پیچھے کی جانب سرکا کر جج صاحبان کے بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی اور بعد میں کرسیوں کو سامنے پڑے نیم دائرے کی شکل کے میز کے قریب کر دیا۔

بینچ کے سربراہ کی حیثیت سے جسٹس بندیال نے انتہائی سنجیدہ انداز میں فیصلہ پڑھا جس میں انہوں نے 2 ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا اور نہ صرف وفاقی حکومت کے اس اعتراض کو مسترد کر دیا کہ عمران خان کی مذکورہ درخواست قابلِ سماعت نہیں بلکہ نیب قانون میں کی گئیں ترامیم کو بھی کالعدم قرار دیتے ہوئے عمران خان کی درخواست منظور کر لی۔

آخری دن چیف جسٹس کے بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھیں

بینچوں میں تبدیلی گو کہ کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن کمرہ عدالت نمبر 1 میں چیف جسٹس کے بینچ میں زیادہ تر جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر ہی شامل ہوا کرتے تھے۔ اس سے قبل بھی سپریم کورٹ میں دیکھا گیا ہے کہ مختلف چیف جسٹس صاحبان زیادہ تر اپنے مخصوص ججوں کو بینچ میں شامل رکھتے ہیں اور جسٹس بندیال کے دور میں بھی یہی پریکٹس رہی لیکن ایک ہفتے کے لیے جاری ہونے والے روسٹر میں اس بار جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp