منتخب پارلیمینٹ کی بالادستی غیرمنتخب ججز پر مقدم ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ

جمعہ 15 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ نے تین دو کی اکثریت سے نیب ترامیم کالعدم قرار دیں جس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا جس سے جسٹس منصور علی شاہ نے اختلاف کرتے ہوئے لکھا کہ معاملہ نیب ترمیمی قانون میں سقم کا نہیں بلکہ 24 کروڑ عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ کی بالا دستی کا ہے۔

نیب ترمیمی قانون سے متعلق سپریم کورٹ نے تحریری فیصلہ جاری کر دیا جس میں جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے جس میں انہوں نے منتخب پارلیمینٹ کی بالادستی کو غیر منتخت ججوں پر مقدم قرار دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سنہ 2022 میں ہونے والی نیب ترامیم سے متعلق محفوظ فیصلہ سنایا تھا جس کے مطابق چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست کو قابل سماعت قرار دے دیا گیا اور نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے عوامی عہدے رکھنے والے افراد کے نیب میں موجود تمام مقدمات کو بھی دوبارہ بحال کر دیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ

اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ معاملہ نیب ترمیمی قانون میں سقم کا نہیں بلکہ 24 کروڑ عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ کی بالا دستی کا ہے۔

 درخواست گزار عمران خان کا نام لیے بغیر جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ اس فیصلے میں عدالتی اکثریت ایک رکن پارلیمنٹ کے اس غیر آئینی مقصد کا شکار ہو گئی جس کے تحت اس نے ایک پارلیمانی بحث کو سپریم کورٹ کے دروازے پر لا کھڑا کیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ کل رات انہیں تحریری فیصلہ دیا گیا اور وقت کی قلت کی باعث وہ تفصیلی وجوہات کا ذکر نہیں کر سکتے لیکن وہ اس فیصلے سے اتفاق نہیں کر سکتے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ یہ معاملہ پارلیمانی جمہوریت کے آئینی تقدس اور ریاست کے 3 عناصر میں اختیارات کی تقسیم کا ہے۔ ججز غیر منتخب ہوتے ہیں اور ایک ایسے قانون کے بارے میں فیصلہ کرنا مناسب نہیں جس میں بادی النظر میں آئین میں موجود کسی بنیادی حق کو متاثر نہ کیا گیا ہو۔ ہمارے آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ریاست منتخب نمائندوں کے ذریعے سے اختیارات کا استعمال کرے گی۔

اکثریتی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا ہے کہ کس طرح اراکین پارلیمنٹ کا احتساب آئین میں درج بنیادی حقوق کا حصہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ اکثریتی فیصلے میں 2 جج صاحبان نے اس مفروضے کو بنیادی حقوق کے معاملے سے جوڑنے کے لیے ایک لمبا راستہ اختیار کیا ہے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ جسٹس بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن کے تحریری فیصلے میں یہ بھی سقم ہے کہ انہوں نے اس بات کا ادراک نہیں کیا کہ جو پارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے وہی اس کو ختم کر سکتی ہے اور پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی سے متعلق لامتناہی اختیارات ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چونکہ پارلیمنٹ نے یہ قانون بنایا ہے اس لیے وہی اس کو ختم بھی کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ان وجوہات کی بناء پر میں اس فیصلے سے اختلاف کرتا ہوں جس کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی‘۔

تفصیلی فیصلہ

58 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے تحریر کیا ہے۔ فیصلے کا آغاز سورہ یوسف کی آیت نمبر 27 سے کیا گیا جس میں ایمان والوں سے امانتوں میں خیانت نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ فیصلہ 2 ایک کی اکثریت سے جاری کیا گیا ہے۔

نیب مقدمے کے لئے مالی منفعت کے ثبوت کی فراہمی ضروری نہیں

سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب ترمیمی قانون میں  کابینہ اور سرکاری محکموں سے متعلق تمام اسکیموں، منصوبوں، مشوروں کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا ہے اور نیب صرف اسی صورت میں کاروائی کر سکتی ہے جب کسی عوامی عہدیدار کے بارے میں ثابت ہو جائے کہ اس نے مالی فائدہ اٹھایا ہے، سپریم کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں کہا ہے کہ نئے نیب ترمیمی قانون کے ذریعے عملی طور پر عوامی عہدیداران کو نیب کے دائرہ کار سے باہر کر دیا گیا سوائے اس کے کہ انہوں نے کوئی مالی فائدہ اٹھایا ہو۔

نیب مقدمے کے لیے 50 کروڑ روپے کی حد ترمیم کالعدم

 فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ترمیمی قانون میں مقدمے کے اندراج کے لئے مالی منفعت کا ثبوت ضروری ہے اور  اگر نیب یہ رکاوٹ پار بھی کر لے تو اس کے آگے ایک اور رکاوٹ ہے کہ 50 کروڑ روپے سے کم کرپشن کے مقدمے پر کاروائی نہیں کر سکتی۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ملزم کے خلاف کرپشن پر نیب قانونی کارروائی نہیں کر سکتا۔

پارلیمنٹ نے عدلیہ کے کام میں دخل اندازی کی

عدالت نے کہا ہے کہ اصول یہ ہے کہ کوئی ادارہ دوسرے کے اختیارات میں دخل اندازی نہیں کر سکتا لیکن پارلیمنٹ نے 50 کروڑ روپے سے کم کرپشن کرنے والے عوامی عہدیداران کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال کر عدلیہ کا کردار ادا کیا۔

بار ثبوت نیب پر

بیرون ملک جائیدادوں اور آمدن سے زائد اثاثہ جات پر بھی بار ثبوت نیب پر ڈال دیا گیا ہے، عدالت نے لکھا ہے کہ اس ترمیم کا اثر یہ ہو گا کہ مستقبل میں کم سے کم لوگ اس قانون کے تحت سزا پا سکیں گے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ کرپشن کے بیشتر ملزمان کے اثاثے بیرون ملک ہیں، بیرون ملک سے آنے والی دستاویزات شواہد کے طور پر استعمال ہوسکیں گی، غیرملکی شواہد کے قابل قبول ہونے کے لیے قانون شہادت میں معیار پہلے ہی کافی سخت ہے، غیرملکی شواہد سرے سے ہی ناقابل قبول قرار دینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے،آمدن سے زائد اثاثوں پر حساب نہ ہو تو عوام کا کرپشن کی نظر ہونے والا پیسہ ریکوور نہیں ہوسکے گا۔ عوام کا پیسہ ریکوور نہ ہونا ان کے بنیادی حقوق کو براہ راست متاثر کرے گا۔

عدالت نے لکھا ہے کہ نئے نیب ترمیمی قانون میں زیر التواء مقدمات اور تفتیشوں کو نیب سے منتقل کرنے کی بات کی گئی ہے لیکن  اس کے لئے کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا کہ یہ کن اداروں یا عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی۔

درخواست قابلِ سماعت ہے

اکثریتی فیصلے میں درخواست گزار عمران خان کے بطور متاثرہ فریق ہونے پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے لکھا ہے کہ جب عدالت ازخود اختیارات استعمال کرتی ہے تو درخواست گزار کا کردار صرف ایک اطلاع دینے والے کے رہ جاتا ہے دوسرا یہ کہا گیا کہ عمران خان کو اگر اعتراضات تھے تو وہ ان کا اظہار پارلیمنٹ میں بھی کر سکتے تھے اور وہ پارلیمنٹ سے باہر نکل آئے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ کسی سیاستدان یا سیاسی جماعت کا صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں رہے یا باہر نکل جائے۔

ساری ترامیم غلط نہیں کچھ اچھی اور قابلِ تعریف بھی ہیں

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے نیب قانون میں سال 2022 میں کی جانے والی ساری ترامیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے لیکن ان ترامیم کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہر ترمیم سے عوام کے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے۔

پلی بارگین پر ترمیمی قانون کالعدم

پلی بارگین کے بارے میں اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کی پلی بارگین کے بارے میں عدالتی اختیار کو ختم کرنا عدلیہ کی آزادی اور آئین کے آرٹیکل (3)175 کے خلاف ہے، غیر ترمیم شدہ نیب قانون میں مجرم اور پلی بارگین کرنے والے عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیے گئے ہیں جبکہ پلی بارگین کے ملزمان کو رعایت دینا خود نیب قانون کے سیکشن 15 کے خلاف ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سرکاری افسران کی کرپشن سے متعلق کچھ مقدمات نیب جبکہ کچھ الزامات کے لیے دوسرے فورم موجود ہیں اور وہاں چلائے جا سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp