برصغیر کے عظیم گلوکار کی 49 ویں برسی پر تحریر
کم سن امانت علی کو خو د یاد نہیں تھا کہ وہ کب ریاض کرتے کرتے نیند کی وادی میں کھو گئے۔ کم و بیش وہ اونگھ ہی رہے تھے کہ ایک سریلی اور مدھر آواز نے جیسے انہیں جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ابھی ان کی عمر صرف 9 برس ہی تھی اور وہ اپنے خاندانی شوق اور پیشے یعنی گلوکاری میں نام کمانے کے لیے گھنٹوں ریاض کرتے تھے۔ ابتدا میں انہیں گلوکاری کا قطعی شوق نہیں تھا لیکن والد کا اصرار تھا کہ اُن کا پیٹالہ گھرانہ گلوکاری کا قد آور نام ہے سو انہیں اپنی وارثت کو اور زیادہ مقبول بنانا ہے۔کچھ ایسی گلوکاری کرنی ہے کہ آسمان موسیقی پر پیٹالہ گھرانے کا نام جگمگاتا رہے۔ ابتدائی سالوں میں امانت علی خان ایک بوجھ ہی سمجھ کر گلوکاری کے اسرار و رموز سے آگاہی حاصل کرتے رہے لیکن جیسے جیسے عمر کی منزلیں طے کیں تو انہیں خود لطف آنے لگا۔اُنہیں ایسا لگنے لگا کہ جیسے ان کا جنم گلوکاری کے لیے ہی ہوا ہے۔ امانت علی خان چھوٹے بھائی فتح علی خان کے ساتھ سنگت بنا کر عموماً ریاض کرتے اور بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوتا کہ وہ تن تنہا یہ کام کرتے اور یہ ریاض صبح کے اجالے تک جاری رہتا۔
اُ س روز بھی امانت علی خان خاندانی حویلی کے ایک کمرے میں ریاض کررہے تھے۔ تان پورے پر انہوں نے راگ مالکونس چھیڑا ہوا تھا۔ سُر سے سُر مل رہے تھے اور اپنی دھن میں مگن امانت علی خان دنیا جہاں سے بے خبر ہو کر ریاض کرتے ہی چلے جارہے تھے۔ شام سے رات ہوئی اور پھر رات سے آدھی رات لیکن امانت علی خان اپنے لگائے ہوئے راگ میں جیسے کھو سے گئے تھے۔رات کے سناٹے میں اُن کی نغماتی آواز دور دور تک پھیل رہی تھی۔ راتوں کو جاگ کر ریاض کرنے والے امانت علی خان کی نجانے کب آنکھ لگی کہ انہیں اس کا خود اندازہ نہیں تھا۔
امانت علی خان کے ہاتھ تاروں پر ہی رہے اور دیوار سے ٹیک لگا کر جیسے وہ سستانے لگے۔ کوئی ایک دو منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ ان کے کانوں میں ایک رسیلی آواز پڑی۔ امانت علی خان کو لگا جیسے کوئی ان کے بالکل برابر بیٹھ کر گنگنارہا ہے۔ امانت علی خان آنکھیں موندھ کر سن رہے تھے اور انہیں ایک الگ سرور مل رہا تھا۔ انہیں گمان یہی ہوا کہ چھوٹے بھائی یعنی فتح علی خان نے امانت علی خان کو ریاض کرتے دیکھا تو رات کے آخری پہر ان کے ہمنوا بن گئے۔ سر کو ہلاتے ہوئے اور آنکھیں کھولے بنا امانت علی خان نے تان پورے پر دھن بجانا شروع کردی۔
امانت علی خان یہ مدھر گلوکاری سن کر جیسے اس میں کھو سے گئے۔ احساس یہ بھی ہوا کہ فتح علی خان اس لیے بہترین گلوکاری کررہے ہیں کیونکہ وہ نیند پوری کرکے آئے ہیں اورجبھی ان کی آواز میں تازگی ہے جبکہ وہ خود رات 8بجے سے ریاض کررہے تھے اسی لیے وہ تھک بھی گئے تھے۔ کوئی 10منٹ تک یہ نغماتی گلوکاری ہوتی رہی۔ جس سے امانت علی خان کو ایک فرحت بخش احساس دلا دیا تھا۔
امانت علی خان تو اس وقت چونکے جب گلوکاری کرنے والا 5سُر کے راگ مالکونس میں ’ساگا مادھانی سا‘ کے اوپر کے گندھار یعنی’گا‘ سے نیچے اس قدر خوبصورتی سے لوٹا کہ امانت علی خان جھوم اٹھے۔ جبھی انہوں نے یکدم آنکھیں کھول کر دا دینی چاہی تو ان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ امانت علی خان کے اوسان خطا ہوچکے تھے کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ ان کے آس پاس کوئی بھی نہیں تھااور ناہی وہ آواز اب سنائی دے رہی تھی۔ کم سن اور معصوم امانت علی خان نے چند سکینڈز تک سوچا اور پھر تان پورا پھینک کر چلاتے ہوئے کمرے سے بھاگ کھڑے ہوئے۔
امانت علی خان نے والد کے کمرے کا رخ کیا اور چھلانگ لگا کر ان کے بستر میں جاگھسے۔ وہ بری طرح کپکپا رہے تھے۔ والد نے ان کی یہ حالت دیکھ کر وجہ دریافت کی تو امانت علی خان نے سارا ماجرہ بیان کردیا۔ والدکا کہنا تھا کہ وہ گھبرائیں مت، ان کے ساتھ واپس اُس کمرے میں چلیں اور پھر سے ریاض کریں اور جو آواز امانت علی خان کے کانوں میں پڑی تھی اُس کی کاپی کرنے کی کوشش کریں۔
والد نے حکم تو دے دیا لیکن امانت علی خان پر تو جیسے خوف کی کیفیت غالب تھی۔ جنہو ں نے صاف انکار کردیا۔ والد کا یہی کہناتھا کہ وہ خود ان کے ساتھ ہو ں گے اسی لیے ڈرنے یا خوف زدہ ہونے کی کوئی بات نہیں۔ لڑکھڑاتے ہوئے امانت علی خان ایک بار پھر اسی کمرے میں تھے جہاں انہوں نے اجنبی آواز میں گلوکاری سنی تھی۔ والد صاحب دروازے پر کھڑے تھے اور اب ایک مرتبہ پھر امانت علی خان تان پورا پردھن چھیڑ رہے تھے۔ اب صورتحال یہ تھی کہ امانت علی خان گنگناتے اور پھر خاموش ہوجاتے۔ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کان لگا کر یہ کوشش کرتے کہ کہیں کوئی ساتھ گا تو نہیں رہا لیکن وہ آواز سنائی نہ دی۔ کئی بار کی کوشش کے بعد امانت علی خان اس کمرے سے باہر نکل آئے لیکن وہ گلوکاری ان کے دل و دماغ پر اُس وقت تک ترو تازہ رہی جب تک وہ حیات تھے۔
امانت علی خان جو بعد میں استاد امانت علی خان کہلائے، اُن کا کہنا تھا کہ عین ممکن ہے کہ جو ان کے ساتھ سُر سے سُر ملا رہا تھا وہ کوئی جنات ہی ہوگاجسے ان کی گلوکاری بھا گئی ہو۔اس میں قطعی کوئی اختلاف نہیں کہ استاد امانت علی خان نے گلوکاری میں وہ مقبولیت حاصل کی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ غزل، کلاسیکی نغمہ سرائیکی اور ہلکی پھلکی گلوکاری میں استاد امانت علی خان نمایاں رہے۔ پرائیڈ آف پرفارمنس حاصل کرنے والے استاد امانت علی خان صرف 52برس کی عمر میں چل بسے لیکن ان کے گائے ہوئے نغمے آج تک ہر ایک کے ذہن میں ترو تازہ ہیں۔
استاد امانت علی خان کے مشہور نغمے
انشا جی اٹھو اب کوچ کرو
ہونٹوں پے کبھی اُن کے
مورا جیا نہ لگے
کب آؤ گے
یہ نہ تھی ہماری قسمت
یہ آرزو تھی تجھے گل
چاند میری زمین پھول میرا وطن
اے وطن پیارے وطن