18 ستمبر کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ساتھی ججوں کی مشاورت سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر کارروائی ٹیلی ویژن پر براہِ راست دکھانے کی اجازت دی۔ اس پر بہت سے مبصرین نے مثبت ردعمل کا اظہار کیا کہ اس سے سپریم کورٹ کے مقدمات میں مزید شفافیت آئے گی اور لوگ براہِ راست عدالتی کارروائی پر تبصرے کر سکیں گے۔
سپریم کورٹ ذرائع کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی اگلی سماعت بھی 3 اکتوبر کو براہِ راست نشر کی جائے گی، جبکہ باقی مقدمات کی براہِ راست نشریات کے لیے قواعد و ضوابط تشکیل دیے جا رہے ہیں۔
زیادہ تر لوگوں نے کہا کچھ سمجھ نہیں آ رہی
یوٹیوب پر لائیو ٹرانسمیشن کے نیچے زیادہ تر لوگ یہ کمنٹ کرتے نظر آئے کہ انہیں اس کارروائی کی کچھ سمجھ نہیں آرہی۔ تقریباً ایسا ہی ردعمل ہمیں سماجی رابطے کی دوسری ویب سائٹس پر بھی دیکھنے کو ملا۔ کئی لوگوں نے اس بات پر تنقید کی کہ ججوں کو انگریزی کی بجائے اپنی قومی زبان اردو میں بات کرنی چاہیے تاکہ لوگوں کو سمجھ میں آ سکے۔
جج اگر اردو میں بات کرتے تو بھی لوگوں کو سمجھ نہ آتی
عدالتی کارروائی کو سمجھنے کے لیے کسی بھی مقدمے کا ایک تو سیاق و سباق اور دوسرا عدالتی اصطلاحات کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان دو چیزوں کو سمجھے بغیر آپ عدالتی کارروائی کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس بات کی مثال ایسے دی جا سکتی ہے کہ 2 انجینئرز اگر کسی تکنیکی معاملے پر بات کر رہے ہیں، خواہ وہ آپ کی مادری زبان ہی میں بات کیوں نہ کر رہے ہوں، آپ کو بات سمجھ میں نہیں آ سکتی کیونکہ ان کی بات سمجھنے کے لیے آپ کو تکنیکی اصطلاحات کو علم ہو چاہیے اور ایسا ہی زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
مثلاً اگر علمائے دین آپس میں بات کر رہے ہیں اور وہ گفتگو کے دوران اگر عربی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہیں تو عام آدمی ان کی گفتگو کو نہیں سمجھ سکتا۔
عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ میں کورٹ رپورٹرز کا کردار کیا ہوتا ہے؟
سپریم کورٹ، ہائی کورٹ یا پھر ضلعی عدالتیں، یہاں سے روزانہ کی بنیاد پر ٹیلی ویژنز اور اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرنے والے رپورٹرز چونکہ ساری عدالتی کارروائی کا سیاق و سباق سمجھتے ہیں اور آئینی اور قانونی اصطلاحات سے بھی قدرے آشنا ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ عدالتی کارروائی کو آسان الفاظ میں بیان کر کے عوام تک پہنچاتے ہیں اور عوام کو یہ بھی سمجھاتے ہیں کہ اس فیصلے کا ان کی زندگیوں پر کیا اثر پڑے گا۔
لوگ عدالتی کارروائی کو اپنی مرضی کے معانی پہناتے نظر آئے
عدالتوں میں ججز اکثر اوقات وکلا سے کسی بات کی وضاحت کے لیے ایسے سوالات پوچھتے ہیں کہ اگر آپ ان کو ساری عدالتی کارروائی سے ہٹ کر دیکھیں گے تو یوں لگے گا کہ جیسے مذکورہ جج صاحب یا صاحبہ اپنا ذہن بنا چکے ہیں اور وہ مدعی یا مدعا الیہ کے حق میں بات کر رہے ہیں، لیکن روزانہ عدالتی کارروائی کو رپورٹ کرنے والے رپورٹرز اور وکلا جانتے اور سمجھتے ہیں کہ جج صاحب نے ایسی بات کیوں کی یا ایسا سوال کیوں پوچھا۔
سپریم کورٹ سے لائیو کوریج کے بعد بہت سی ایسی سوشل میڈیا پوسٹیں دیکھنے میں آئیں جہاں لوگ کسی جج یا کسی وکیل کی کسی ایک بات کو اٹھا کر ان کی قابلیت کے بارے میں فیصلے صادر کر رہے تھے۔
سپریم کورٹ کمرہ عدالت نمبر ایک کئی لوگوں نے پہلی بار دیکھا
سوشل میڈیا پر جہاں عدالتی کارروائی پر تبصرے نظر آئے وہیں ہمیں ایسی پوسٹیں بھی دیکھنے کو ملیں جن میں لوگوں نے سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر ایک کے مناظر پہلی بار اسکرینوں پر دیکھے۔ 18 ستمبر کی لائیو سماعت کے بعد جہاں کئی لوگ سپریم کورٹ کے اہلکاروں کے یونیفارم پر تبصرے کرتے نظر آئے وہیں کئی لوگوں نے عدالتی کارروائی سے ہٹ کر کمرہ عدالت پر بھی تبصرے کیے۔
لائیو کوریج چیف جسٹس کا درست فیصلہ ہے، شوکت عزیز صدیقی
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے لائیو کوریج کے اقدام کو سراہا اور بطور جج اسلام آباد ہائی کورٹ سے برطرفی کا ان کا جو مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، انہوں نے کہاکہ وہ سپریم کورٹ سے درخواست کریں گے کہ اس کی کارروائی بھی براہِ راست نشر کی جائے۔
انہوں نے کہاکہ جب ان کو برطرف کیا گیا تو اس سے قبل سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی اِن کیمرہ ہوتی تھی لیکن انہوں نے درخواست کی تھی کہ اس مقدمے کو کھلی عدالت میں سب کے سامنے سنا جائے۔ ’بہت اچھی بات ہے کہ عوام آئینی اور قانونی تناظر کو خود سمجھیں اور جہاں تک بات یہ ہے کہ عوام تکنیکی بحث کو نہیں سمجھ سکتے تو اس میں تھوڑا وقت لگے گا‘۔
شوکت صدیقی نے کہاکہ سپریم کورٹ کی کارروائی براہِ راست دکھانے کے عمل سے تاریخ بن رہی ہے۔ یہ کارروائی چونکہ بہت سنجیدہ ہوتی ہے اس لیے عوام کو اسے سمجھنے میں وقت لگے گا۔
لائیو کوریج کے لیے کچھ قواعد و ضوابط بننے چاہییں، حسنات ملک
طویل عرصے سے سپریم کورٹ رپورٹنگ سے منسلک انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹریبیون کے صحافی حسنات ملک نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے براہِ راست کارروائی کے اقدام کو سراہا، لیکن ساتھ میں یہ بھی کہاکہ اس براہِ راست کوریج کے لیے کچھ قواعد و ضوابط بننے چاہییں۔
حسنات ملک نے کہاکہ پوری دنیا میں عدالتوں سے لائیو رپورٹنگ ہوتی ہے، ہمارے پڑوسی ملک بھارت اور امریکا میں مقدمات کی کارروائی براہِ راست دکھائی جاتی ہے اور اس سے عوام کو عدالتوں کی خوبیاں اور خامیاں بلاواسطہ طریقے سے پتہ چلیں گی۔ عدالتوں کو پتہ چلے گا کہ عوام ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، وکیلوں کو ان کی کارکردگی پر براہِ راست فیڈ بیک ملے گا اور یہ ایک اچھا فیصلہ ہے، لیکن سیاسی نوعیت کے مقدمات میں سوشل میڈیا پر بیٹھے لوگ سیاق و سباق سے ہٹ کر جب کچھ ججز کے ریمارکس کو اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ فلاں جج نے فلاں جماعت یا فلاں شخص کے پرخچے اڑا دیے اور پھر سوشل میڈیا پر ٹرولنگ شروع ہو جاتی ہے تو ان چیزوں کے لیے کچھ قواعد و ضوابط بننے چاہییں۔
حسنات ملک نے کہاکہ پارلیمنٹ کی کارروائی بھی براہِ راست دکھائی جاتی ہے اسی طرح سے سپریم کورٹ کی براہِ راست کارروائی بھی ایک احسن اقدام ہے اور ججز کو اپنے ریمارکس کے اندر تھوڑا محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔
زبانی اور تحریری فیصلے میں فرق ہوتا ہے، رانا مسعود حسین
2006 سے سپریم کورٹ کوریج سے وابستہ جنگ اخبار کے سینیئر صحافی رانا مسعود حسین نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ 75 سال سے اس ملک میں خوف، سیکریسی اور کنفیوژن پھیلائی گئی۔ اب ایک عوام دوست چیف جسٹس نے آ کر عوام کے لیے عدالتی کارروائی کے دروازے کھول دیے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ نہ صرف سپریم کورٹ بلکہ ہائی کورٹ اور ضلعی عدالتوں میں بھی کیمرے نصب ہونے چاہییں تا کہ کیمرے کے خوف سے شاید ہم لوگ سچ بولنا شروع کر دیں۔ اکثر اوقات عدالت میں زبانی طور پر ایک فیصلہ سنایا جاتا ہے جبکہ تحریری طور پر یہ فیصلہ یکسر مختلف ہوتا ہے، عدالتیں کسی شخص کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کرتی ہیں تو کئی کئی روز اس کی روبکار ہی جاری نہیں ہوتی۔ اس لیے اگر کیمرہ نصب ہو گا تو اس طرح کی چیزیں شاید نہ ہوں۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں نو آبادیاتی نظام کی باقیات کے طور پر حقائق کو عوام سے چھپایا جاتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ عوام کو حقائق تک رسائی دینا احسن اقدام ہے، اس لیے تمام اہم مقدمات کو براہِ راست نشر کرنے کا اہتمام ہونا چاہیے۔