اس بار میں نے ادھر ہی آنا تھا۔۔۔ کہ سفر اِدھر کا تھا۔۔۔
اور پہاڑوں میں شام جلد اُتر آتی ہے۔۔۔اور اسی طرح رات بھی۔۔۔
اور شام اُتر آئی تھی۔۔۔
اور ہم سڑک پر تھے۔۔۔
جب گلگت سے نکلے تو دن کے دو پہر نکل چکے تھےاور تیسرے کا آغاز ہو چکا تھا۔ گرمیوں کے دن لمبے ہوتے ہیں اور راتیں چھوٹی۔ گویا دن ختم نہیں ہوتا اور رات شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن پہاڑوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ شام طویل ہوتی ہے اور رات طویل تر۔ ہمارا سفر جب شروع ہوا تو شام شروع ہو چکی تھی اور جانا دور تھا۔ جبکہ سڑک ، اس موڑ کی طرف جاتی تھی، جس سے آگے، صرف استور تھا۔ اور ہمیں استور کی وادی میں کشمیر کے ہمسائے میں، منی مرگ کے مرغ زاروں میں جانا تھا۔ ہم گھوڑوں پر نہیں تھے بلکہ اس دو رویہ سڑک پر، اکمل شہزاد گھمن اگلی پراڈو میں سوار تھاجبکہ میں اس سے پیچھے تھا، ویگو ڈالے پر وہ بھی سیاہ رنگ کا، لیکن دل کو اطمینان تھا، اور روح کو سکون۔
اگر آپ اسلام آباد سے آرہے ہیں تو بابوسر سے اُتریں یا قراقرم کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے بشام، داسو، اور چلاس سے ہوکرآئیں۔ استور جانا ہو تو تھییلچی کے مقام پر آ کر پُر شِکوہ نانگا پربت کے سامنے بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے مسحور کن نانگا پربت کی برف سے ڈھکی چوٹی کا نظارہ لیں۔ یاد رہے یہ وہی نانگا پربت ہے جس کے دوسری طرف پریوں کے دیس ہیں ۔ جنہیں دنیا فیری میڈوز کے نام سے جانتی ہے ۔ اساطیری نانگا پربت کو آپ نے زیادہ دیر تک نہیں دیکھنا اور ایک ٹُک تو بالکل بھی نہیں دیکھنا۔ ورنہ یہیں بیٹھے رہ جائیں گے اور حسنِ استور رہ جائے گا۔ چائے پی کر وہاں سے ذرا آگے آئیں گلگت کی جانب تو رستے میں ایک سڑک دائیں جانب کو مڑے گی۔ یہی رستہ استور کو جاتا ہےاور یہ ایک باقاعدہ سڑک ہے۔تارکول سے ڈھکی، سیاہ سڑک ۔۔ گھومتی، بل کھاتی، جھومتی سیاہ سڑک ۔ اور اس موڑ سے، استور کو جاتے ہیں۔۔۔ کچھ سست قدم رستے۔۔۔ کچھ تیز قدم راہیں ۔۔۔
لیکن ہم، اِدھر سے جا رہے تھے۔ اور اگر اِدھر سے، مطلب گلگت شہر سے استور کی طرف جائیں تو قراقرم ہائی وے پر سفر کرتے،آپ دریائے گلگت کے اِس طرف ہوتے ہیں، اور اُس طرف، دریا کے پار، بڑی دلآویز بستیاں سبزے کے غلاف میں لپٹی نظر آتی ہیں۔ پہلے دنیور، پھر اوشکن داس، اور پھر جلال آباد۔ وہیں سے آپ کو، قائداعظم کی جناح کیپ سی چوٹی بھی نظر آئے گی جس کا نام بلچھار ہے۔ دریا پار کی اُن بستیوں میں سے میں نے صرف دنیور دیکھا ہے۔ دنیور سے آگے، باوجود میری شدید خواہش کے میں آگے کی بستیوں میں ابھی تک نہیں جا سکا۔
پہاڑوں میں سفر کرنے والے جانتے ہیں اگر وہ دریا کے اِس طرف والی سڑک پر ہوں تو دوسری طرف کسی بھی بستی میں جانا ناممکن ہوتا ہے، بھلے وہ کتنی ہی بھلی کیوں نہ دِکھتی ہو۔ اُس پار کی بستیوں میں جانے کے لئے یا تو دریا کو تیر کر عبور کرنا ہوتا ہے۔ جو کہ جان سے جانے کے مترادف ہوتا ہے یا کسی چوبی یا پکے پُل کے آنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ لیکن وہ پُل اتنا دور جاکے آتا ہے کہ بستی بہت پیچھے رہ جاتی ہےاور اسے پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ پہاڑوں میں سفر کرنے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ پہاڑوں کے بیچ سفر کرتے اگر کچھ پیچھے رہ جائے بھلے وہ کتنا ہی پیارا یا قیمتی کیوں نہ ہو اسے پیچھے مڑ کر دیکھنے سے مسافر اگرچہ پتھر کا تو نہیں ہوتا لیکن جان سے ضرور چلا جاتا ہے۔
ہم استور کی طرف جا رہے تھےاور کے کے ایچ پر تھے۔ سکوَر آیا، مناور آیا، پڑی بنگلہ آیا، پھر سکردو موڑ آگیا۔ ایک خوبصورت سی نئی بنی ہوئی سڑک یہاں سے دریا پار کرکے، سکردو کی طرف جاتی ہے۔ آپ سے گزارش ہے، اس سڑک کی خوبصورتی پر مت جائیے گا۔ یہ دور سے جتنی پیاری لگتی ہے، اُتنی ہی خطرناک بھی ہے۔ اس پر سفر کی کہانی پھر سہی۔ اس موڑ سے آگے جگلوٹ اور پھر بونجی آئے گا اور پھر ایک سڑک آپ کے بائیں ہاتھ مڑے گی۔ یہی وہ سڑک ہے جس پر چل کر آپ استور کے وادیوں میں پہنچ جائیں گے۔
تو میں بات کر رہا تھا کہ میرے آگے گھمن صاحب کی پراڈو تھی اور پہاڑوں کے بیچ شام اُتر رہی تھی۔ سورج ہمارے پیچھے، کوہ ہندو کش میں کہیں غروب ہو رہا تھا۔ اور ہم کوہ ہمالیہ کے بیچوں بیچ، ڈوئیاں، مش کِن، دش کِن، ہرچو اور لوس نامی بستیوں سے گزرتے جب استور پہنچے تو شام کے یہی کوئی پانچ بجے کا عمل رہا ہوگا۔ سفر کو لگ بھگ دو گھنٹے ہو چکے تھے۔ استور شہر، دریا کے دونوں طرف پھیلا ہوا ہے۔ اپنی رنگا رنگ فطری خوبصورتی اور دلفریبی کے باعث تو مشہور ہے ہی اس کی وجہِ شہرت بین الاقوامی سطح پر پاکستان اور گلگت بلتستان کا نام روشن کرنے والا خوبصورت اور وجیہہ باکسر عثمان وزیر بھی ہے۔ یہیں پر اس کا ایک ریستوران اور ہوٹل، عثمان محل بھی ہے جو لذیز کھانوں اور بہترین رہائشی سہولیات سے مزیّن ہے۔
استور کے بازار سے گزرے تو ایک سڑک ہمارے داہنے ہاتھ سے اوپر کی جانب مڑگئی۔ یہ راستہ راما جھیل کی طرف جاتا ہے۔ ہم اُس طرف نہیں مڑے کہ اس پر ہم دو سال قبل مڑ چکے تھے۔تب بھی ہم سفر اکمل گھمن ہی تھا۔ اب کی بار سفر آگے کا تھا اور منزل کہیں اور کی تھی۔ اب کی بار ہمارے ماتھوں پر بوسے،پریوں کے دیس جانے کو ثبت کیے گئے تھے۔اور شام گہری ہونے سے پہلے ہمیں کہیں پہنچنا تھا۔ ہمیں، دور کی جھیلوں میں بسنے والوں کی نظمیں سننا تھیں۔ جو ، ہم سے دور تھے، لیکن ہمارے پاس رہتے تھے۔
فِنا کے بعد گوری کوٹ آیا تو وہاں رک کر کچھ خریداری کی گئی۔ دودھ، انڈے، مرغی، بریڈ، وغیرہ وغیرہ۔ سفر شروع ہو گیا اور دونوں طرف بڑے صحنوں اور چھوٹے کمروں والے گھر تھے۔دائیں طرف والے گھر سڑک سے نیچے، جبکہ بائیں ہاتھ والے گھر سڑک سے اونچے تھے۔ اور اُن گھروں میں خوبانی ابھی بھی پکنے کے انتظار میں تھی۔ ہرے پتوں کے بیچ چھوٹی چھوٹی، زرد رنگی خوبانی جلتے قُمقموں کا منظر پیش کر رہی تھی۔ میں نے مُشتاق سے کہا کہ گاڑی روکے۔ گاڑی کو رُکتا دیکھ کر چند بچےاور کچھ بڑے ہماری طرف متوجہ ہوئے۔ ایک نوجوان لڑکے سے گزارش کی تو وہ کمال پُھرتی سے ایک درخت پر چڑھ گیا اور اپنی قمیض کی دونوں جیبیں خوبانیوں سے بھر کر نیچے اُترا ۔ میری جُڑی ہتھیلیوں کی پلیٹ میں خوبانیاں ڈالتے بولا، ابھی کچی ہیں، کھٹی ہوں گی۔ میں نے کہا،’جروٹی کا اپنا مزا ہے‘، اور یہ کہہ کر اُسے کچھ معاوضہ دینا چاہا جسے لینے سے اُس نے صاف منع کردیا۔’آپ مہمان ہیں۔ پیسے کیسے لے لوں ‘ ۔ میں ممنون سا ہو کر شرمندہ سا ہوگیا، چُپ سا کر گیا۔جروٹی شینا زبان میں خوبانی کے بچے کو کہتے ہیں۔
گوری کوٹ کے بعد پکورہ، گدئی اور شی کانگ سے گزرتے آئی گاہ آ پہنچے۔ محکمہ جنگلات گلگت کے ہمارے دوست ہمایوں صاحب نے مجھے فون پر بتایا تھا کہ آئی گاہ آئے گا۔ مجھے بالکل بھی سمجھ نہ آئی۔ میں سوچ میں پڑ گیا،یہ دو بار کیوں کہہ رہے ہیں کہ آئے گا ،آئے گا۔ دو تین بار پوچھا لیکن پھر بھی سمجھ نہ آیا۔ میں تھوڑا تاخیر سے سمجھنے والا انسان ہوں۔ دیکھنا کم نہیں کرتا اور سمجھنا چاہتا نہیں۔سوچا ’جب آئے گا، دیکھ لیں گے کہ کیا ہے ‘۔ آئی گاہ پہنچے تو پتہ چلا کہ ہمایوں صاحب کہہ رہے تھے،’آئی گاہ‘ آئے گااور آئی گاہ، آ گیا تھا۔ شام گہری ہوکر رات میں ڈھل چکی تھی۔وہیں سڑک کنارے ایک ہوٹل تھا۔ اس ہوٹل میں رک کر ہم نے چائے پینی تھی۔
سفر جتنا بھی دل چسپ کیوں نہ ہو اور شوقِ سفر کو مہمیز کرتی منزل جتنی بھی دل کش کیوں نہ ہو، تھکن بہرحال ہو ہی جایا کرتی ہے۔ تو اُس تھکن کو تھپکی دینے ہم وہاں رک گئے۔ ہوٹل کے باہر بھی بیٹھنے کا انتظام تھا، سڑک کے کنارے پر اور اندر بھی اہتمام تھا۔ ہم اندر جا بیٹھے۔ بیٹری پر جلتے ملگجے سے بلب کی کوشش تھی کی کمرے میں روشنی بکھیری جائے،کوشش کامیاب تھی۔ اُس سرمئی سی دودھیا روشنی میں چائے پی اور چل پڑے۔ منزل چِلم تھی، جہاں ہمایوں صاحب نے ہمارے قیام کے واسطے ایک گیسٹ ہاؤس میں کمرے رکھوائے ہوئے تھے۔
پہاڑوں میں شام کا سفر اداس اور رات کا سفر پُر اسرار ہو جاتا ہے۔ پہاڑ سڑک کے دونوں جانب ہیولوں کی طرح کھڑے ہوتے ہیں۔ سڑک کے ایک طرف بہتے دریا کا شور مسلسل آپ کے ساتھ ساتھ سفر میں ہوتا ہے۔ایسے جیسے آپ دنیا کا کوئی بھی کام کر رہے ہوں، آپ کے ذہن کے اندر کہیں کسی کی صوتی وعکسی یادوں کی بھنبھناہٹ ساتھ ساتھ اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ کوئی ایسا کہ جس کے ہونے کے ساتھ آپ نے ایسے ہی کسی سفر پہ نکلنے کا ایسی ہی کسی یاد سے گزرنے کا تصور کر رکھا ہو اور وہ آپ کے ساتھ نہ ہو۔
ہم آئی گاہ سے آگے بڑھ گئے تھے۔ ونڈ سکرین پر گرتی بوندوں نے، منظر میں بارش کی انٹری کی خبر دی تھی ۔رات کا وقت تھا۔اندھیرا گہرا ہو رہا تھا ۔ سڑک کے دونوں طرف پہاڑ، ہاتھ باندھے، ہمارے اوپر جھکے ہوئے تھے۔ ہوا میں ،خنکی کا تناسب بڑھ گیا تھا۔ اور کانوں میں ہمارے ساتھ ساتھ بہتے دریائے استور کی بھنبھناہٹ تھی۔ ذہن کے تہ خانے میں کسی’اُس‘ کی، اُن باتوں کی گونج تھی، جو کبھی کبھار ہوئی تھیں۔ اور ان ہوئی باتوں کے گرد اُن باتوں کا ہالہ تھا، جو کبھی نہیں ہوئی تھیں۔
آگے آگے پراڈو، اور پیچھے پیچھے ویگو، اونچے نیچے، پتھریلے رستوں پر ، کبھی سست اور کبھی تیز قدم چلی جارہی تھیں ۔ ہیڈ لائٹس کی تیز روشنی میں کبھی کوئی گیدڑ، کبھی کوئی اود بلاؤ اور کبھی کوئی لومڑی بھاگ کر سڑک پار کر جاتی۔ مشتاق، ایک مشّاق گاڑی بان تھا۔ انہیں علاقوں کا پالا، سدھایا ہوا۔ گاڑی کی لگامیں بہت مہارت سے کبھی کھینچتا تھا، کبھی ڈھیلی چھوڑتا تھا ۔ اس کی کوشش تھی کہ سواریوں کو کم سے کم جھٹکے لگیں ۔ اور بہت حد تک وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی تھا۔
کچھ دیر تاریک اور سنسان سڑک پر سفر کرتے گزر جاتی تو ایک عجیب سی بے چینی کا احساس ہونے لگتا ۔ ونڈ سکرین پر وائپر چلے کچھ دیر ہو جاتی تو برستی بارش ، آگے کے منظر دھندلا دیتی ۔ بے چینی بڑھنے لگتی تو سڑک کے اطراف فاصلوں پر روشنیاں دِکھ جاتیں ۔ گویا کسی بستی کے عنوان نظر آنے لگتے ۔ ایسے میں امجد اسلام امجد کی کچھ سطریں یاد آجاتیں ۔
دن رات کے آنے جانے میں۔
دنیا کے عجائب خانے میں ۔
کبھی شیشے دھندلے ہوتے ہیں ۔
کبھی منظر صاف نہیں ہوتے ۔
کبھی منزل پیچھے رہتی ہے ۔۔
کبھی رستے آگے چلتے ہیں ۔
ہاں، ریت کے اس دریا سے ادھر۔
اک پیڑوں والی بستی کے ۔
عنواں تو دکھائی دیتے ہیں ۔
رات کے کوئی دس بجے تھے جب ایک بڑی بستی کے آثار دکھائی دیے۔ یہ ایک قدرے میدانی علاقہ تھا جس میں کھلے کھلے گھر، ایک دوسرے کے ساتھ لگے تھے۔ یہ چلم تھا اور شہر میں سے گزرتے گزرتے، کوئی ساڑھے دس کے لگ بھگ ہم محکمہ جنگلات کے گیسٹ ہاؤس جا پہنچے ۔ یہ گیسٹ ہاؤس، دیوسائی نیشنل پارک کے بڑے سے آہنی دروازے پر واقع ہے۔ جس پر ایک بورڈ ہے اور اُس بورڈ پر برفانی ریچھ کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ یہ دروازہ در اصل دیوسائی کو جانے والے رستے پر نصب ہے۔ رات کا نصف حصہ بیت چکا تھا اور اسی رستے پر، جو تقریباً ڈیڑھ دو سو گز کا ہوگا، اُس کے سامنے پھیلے ڈھلوانی جنگل سے کبھی کبھاربرفانی ریچھ کے غرانے، یا چِلانے کی آواز آجاتی تھی۔ یہاں گزرے میرے یادگار وقت کی کہانی اگلی ملاقات پر رکھ چھوڑتے ہیں۔