سپریم کورٹ سیاسی اکھاڑہ نہ رہی، عام آدمی کے مقدمات پہلی ترجیح بن گئے

جمعرات 21 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تقریباً 2 ماہ قبل سپریم کورٹ کے داخلی دروازے پر ایک عورت دُہائیاں دیتے پائی گئی کہ اس کا بیٹا اڈیالہ جیل میں قید ہے اور 3 سال سے اس کی شنوائی نہیں ہو رہی۔ راقم الحروف نے اس عورت سے تفصیل دریافت کی اور اس کے بعد سیاسی نوعیت کے ’اہم‘ مقدمات کی کوریج میں مصروف ہو گیا۔ کیونکہ عام آدمی کی حالت زار شہ سرخیاں نہیں بناتی۔ اسی لیے عام آدمی کے حالات سے نا ارباب اختیار کو دلچسپی ہوتی ہے، نا عدالتوں کو اور نا ہی میڈیا کو کوئی سروکار ہے۔

بظاہر سپریم کورٹ میں گزشتہ 3 روز سے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی گہما گہمی کو چھوڑ کر ایک سکون کی کیفیت نظر آتی ہے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اب عام لوگوں کے مقدمات سنے جا رہے ہیں۔

شوقیہ مقدمے بازی بہت سنجیدہ معاملہ ہے

عدالتوں کی روزانہ کوریج کرنے والے صحافی جانتے ہیں کہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں کئی ایسے شوقیہ اور عادی مقدمے باز ہیں جو ہر ملکی نوعیت کے مسئلے پر درخواست دائر کر کے سرخیاں بٹورتے ہیں۔ بعض اوقات ایسی درخواستیں فرمائشی طور پر دائر کروائی جاتی ہیں۔ عدالتیں ایسے سیاسی اور نصابی (سبجیکٹو) مسئلوں پر گھنٹوں بحث کرتی ہیں، گرما گرم ریمارکس دیے جاتے ہیں تو میڈیا کے کارزار میں حرارت کا ماحول بن جاتا ہے، ایسے میں عام آدمی کے مسائل ان 54 ہزار فائلوں کی تہہ کے نیچے دب جاتے ہیں جہاں سالوں پڑے رہنے کے بعد وہ غیر موثر ہو جاتے ہیں۔ گویا مریض فوت ہو گیا اب دوائی ملے نہ ملے کیا فرق پڑتا ہے۔

ہم نے شوقیہ مقدمہ بازی کو ختم کرنا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

سپرکورٹ کے نئے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے 17 ستمبر بروز اتوار کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور اس کے بعد گزشتہ 3 روز سے وہ سیاسی نوعیت کے مقدمات کے بجائے عام درخواست گزاروں سے متعلق کیسز کو سن رہے ہیں۔ یہ امر جہاں خوش آئند ہے وہیں یہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ اب سے پاکستان کی سب سے اعلیٰ عدالت کا ہدف کیا ہو گا، تاحال یہ ہدف عام آدمی کے مسائل ہی نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ روز جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کمرہ عدالت نمبر ایک میں یہ بھی ریمارکس دیے کہ ہم نے شوقیہ مقدمے بازی کو بند کرنا ہے۔

عام مقدمات پر توجہ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ گزشتہ 3 روز سے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کے علاوہ عام مقدمات ہی سن رہے ہیں۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ چونکہ سپریم کورٹ کے طریقہ کار سے متعلق ایک قانون ہے اس لیے اس پر حکم امتناع خارج کرنے کے بعد سے انہوں نے سروس کے معاملے میں پاکستان پوسٹ کی درخواست خارج کردی، قتل کے کیس میں ضمانت منسوخی کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی، سی ڈی اے لینڈ ڈیپارٹمنٹ کے کیس میں ملزم کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرلی، ملازمت بحالی کی دائر اپیل پر سماعت کی، زمین کے تنازع سے متعلق مقدمہ سنا، اسی طرح سے 20 سے 22 ستمبر کے لیے جاری کاز لسٹ کے مطابق کریمنل اور سول مقدمات کی سماعت ہو گی۔

چونکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع خارج ہو چکا ہے، اس لیے چیف جسٹس 2 سینیئر موسٹ ججوں کی مشاورت سے بینچوں کی تشکیل کر رہے ہیں۔ 20 سے 22 ستمبر تک 5 بینچز 225 مقدمات سماعت کریں گے، چیف جسٹس کا 3 رکنی بینچ 25، جسٹس سردار طارق مسعود کا 2 رکنی بینچ 80، جسٹس اعجاز الاحسن کا 3 رکنی بینچ 40، جسٹس یحیٰی آفریدی کا 3 رکنی بینچ 40 اور جسٹس جمال مندوخیل کا 3 رکنی بینچ بھی 40 مقدمات کی سماعت کرے گا۔

انصاف میں تاخیر ہی سب سے زیادہ توجہ طلب معاملہ ہے

جیسا کہ اوپر ذکر کیا کہ سپریم کورٹ میں کئی مقدمات کی باری تب آتی ہے جب وہ غیر موثر ہو چکے ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک مقدمہ گزشتہ روز جسٹس سردار طارق اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے سنا جس میں ہائی کورٹ سے ضمانت منسوخ ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی لیکن جتنی دیر میں اپیل سماعت کے لئے مقرر ہوئی اتنی دیر میں ٹرائل عدالت نے مقدمے کا فیصلہ بھی سنا دیا۔ اس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کی جب کیس ہی اتنے عرصے بعد لگیں گے تو ایسے ہی ہوگا، جتنی دیر میں کسی آرڈر کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل لگتی ہے ٹرائل کورٹ کیس نمٹا چکی ہوتی ہے۔

اکتوبر 2016 میں سپریم کورٹ نے قتل کے ایک ملزم کو جیل میں اس کی وفات کے 2 سال بعد بری کیا۔ اسی طرح ایک مقدمے میں قتل کی سزا پانے والے ملزم کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے گواہ کے بیانات میں کافی تضادات کی نشاندہی کی لیکن بعد میں پتا چلا کہ اس ملزم کو 2015 میں پھانسی دے دی گئی تھی۔

عام آدمی کے مقدمات کو ترجیح دینا خوش آئند ہے، عرفان قادر

سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان عرفان قادر نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عام آدمی کے مقدمات کو ترجیح دینا بہت ہی خوش آئند قدم ہے، سیاسی مقدمات کی وجہ سے عدالتوں کے پاس زیر التوا مقدمات کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے، انہوں نے کہاکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے بالکل درست بات کی کہ جتنا وقت اس مقدمے کی سماعت میں لگ رہا ہے اس میں ہم 150 مقدمات سن چکے ہوتے۔

انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ نے درست طور پر عام لوگوں کی حالت زار کا خیال کرتے ہوئے عام مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر سننا شروع کیا ہے۔ ایک سابق چیف جسٹس، جسٹس افضل ظلہ کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ 2 سال انہوں نے ازخود اختیارات کے تحت کوئی مقدمہ نہیں سنا تھا، وہ عام آدمی کے مقدمات سنتے تھے اور اپنے 3 سالہ دور کے آخری سال انہوں نے ازخود اختیارات مقدمات کی سماعت شروع کی تھی۔

ججز کی تعداد زیادہ اور تنخواہیں کم ہونی چاہییں

عرفان قادر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کم از کم 30 ججز ہونے چاہییں، اس سے مقدمات کا بوجھ کم ہو گا۔ انہوں نے تجویز دی کی ججوں کی تنخواہیں کم ہونی چاہییں، میں نے کچھ پرانے چیف جسٹس صاحبان کو دیکھ رکھا ہے جن کا معیار زندگی بالکل سادہ تھا، اب کے زمانے کے کچھ سابق چیف جسٹس صاحبان کو دیکھتا ہوں تو وہ بادشاہوں جیسی زندگیاں گزار رہے ہیں۔

شروعات اچھی ہوتی ہے، بعد میں عدالتوں کو کچھ ہو جاتا ہے، بیرسٹر علی ظفر

معروف ماہر قانون اور سابق وزیر بیرسٹر علی ظفر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ سپریم کورٹ عوام سے متعلق مقدمات کے فیصلوں کی جگہ ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے یہ سیاسی مقدمات کا گڑھ بن چکی تھی۔ عام درخواست گزاروں کے مقدمات سننا بہت اچھی بات ہے اور عوام ہی سپریم کورٹ کی پہلی ترجیح ہونے چاہییں، اس سلسلے میں پارلیمنٹ اور سیاستدانوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا کیونکہ وہی اپنے مقدمات لے کر عدالت جاتے ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ شروعات تو عام طور پر اچھی ہوتی ہے لیکن بیچ میں جا کر عدالتوں کو کچھ ہو جاتا ہے۔

عام آدمی کے مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر سننے کا اثر کیا ضلعی عدالتوں پر بھی پڑے گا اور وہاں مقدمات کے فیصلے جلد ہونا شروع ہو جائیں گے؟ اس سوال کے جواب میں بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ اگرچہ ضلعی عدالتیں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کے ماتحت ہوتی ہیں لیکن سپریم کورٹ نے چونکہ اپنی سمت واضح کر دی ہے اس لیے اس کا اثر ماتحت عدالتوں پر بھی پڑے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp