ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں پھر سے اضافہ ہو رہا ہے، صوبہ خیبر پختونخوا میں رواں سال کے دوران اب تک دہشت گردی کے 432 واقعات میں 160 پولیس اہلکار شہید ہو چکے ہیں، یہ شرح گزشتہ سال کی نسبت 235 فیصد زیادہ ہے۔
حال ہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا نے ایک تفصیلی بریفنگ دی جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ پشاور، باجوڑ اور اورکزئی ایجنسی میں داعش کے لوگ موجود ہیں۔
دو راستوں سے آنے والے لوگوں کا جعلی ’تذکرہ‘
یہ دہشت گرد کس طرح پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، اس حوالے سے چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا نے بتایا کہ افغانستان سے بیشتر لوگ 2 راستوں سے پاکستان آ رہے ہیں، ایک بلوچستان سے اور دوسرا طورخم بارڈر سے، طورخم سے تقریباً 5 ہزار افراد ایک دن میں پاکستان آتے ہیں جن میں سے 2 ہزار یہاں ہی رہ جاتے ہیں مگر ان کے بارے میں یہ پتا نہیں چلتا کہ وہ کہاں قیام کرتے ہیں۔
طورخم بارڈر پر تعینات سیکیورٹی اہلکار ان افغان شہریوں کو پاکستان میں داخل ہونے دیتے ہیں جن کے پاس سفری دستاویز ’تذکرہ‘ ہوتی ہے جو کہ افغانستان حکومت کی جانب سے جاری کی جاتی ہے، پاکستان آنے والے بیشتر افغانیوں کے پاس جعلی تذکرہ ہوتا ہے، تاہم اس دستاویز کی تصدیق نہیں کی جا سکتی، تذکرہ دو تین طریقوں سے لکھا ہوتا ہے، یہ کبھی پرنٹ ہوا ہوتا ہے، بعض اوقات یہ فارسی زبان میں یا پھر ہاتھ سے لکھا ہوتا ہے۔
پاکستان آنے کے بعد بیشتر افغان شہری کہاں جاتے ہیں؟
چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا نے بتایا کہ بارڈر پرزیادہ افغانی علاج کے لیے پاکستان آتے ہیں، تاہم بعد میں ان کی شناخت نہیں ہو سکتی کہ وہ کہاں گئے ہیں اور کہاں مقیم ہیں، چیف سیکریٹری نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو ایسی پالیسی بنانی چاہیے کہ تذکرہ کے ذریعے افغان شہریوں کا پاکستان میں داخلے کا سلسلہ ختم ہو جائے اور صرف پاسپورٹ والے افغانیوں کو پاکستان آنے کی اجازت دی جائے۔
اس کے علاوہ جو افغان شہری علاج کی غرض سے پاکستان آتے ہیں ان کا ڈیجیٹل ڈیٹا ہونا چاہیے جس سے معلوم ہو سکے کہ وہ پشاور کہ کس ہسپتال میں علاج کے لیے آئے، کب ہسپتال پہنچے ہیں اور واپس افغانستان چلے گئے ہیں یا نہیں۔
اسپیشل سیکریٹری نے کہا کہ حکومت اس پر کام کر رہی ہے کہ صرف پاسپورٹ کے ذریعے ملک میں داخلے کی اجازت دی جائے۔
رات 9 بجے بارڈر بند ہونے کے بعد کھلنے والے چور راستے
چیف سیکریٹری نے کہا کہ رات 9 بجے کے بعد بارڈر بند ہو جاتا ہے تاہم اس کے بعد بھی افغانی چور مختلف راستوں سے پاکستان میں داخل ہوتے رہتے ہیں، بارڈر کے قریب پل کے نیچے سے 50 ہزار روپے دے کر، ایک اور مقام سے 30 ہزار روپے اور چمن سے محض 10 ہزار روپے دے کر یہ چور پاکستان میں داخل ہوجاتے ہیں، پاکستان آنے والوں کے بارے میں یہ پتا نہیں چلتا کہ وہ دہشت گرد ہیں، علاج کے لیے آئے ہیں یا کسی اور مقصد کے لیے یہاں آئے ہیں۔
دوران اجلاس سینیٹ داخلہ کمیٹی کے چیئرمین محسن عزیز نے کہا کہ بارڈر پر ہماری 12 ایجنسیاں ہیں، ان کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے، پاکستان سے سیمنٹ کے بیگ میں ڈالر اور چینی افغانستان بھیجے جا رہے ہیں اور ایجنسیاں خاموش ہیں۔
دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ
محکمہ انسداد دہشت گردی کے حکام نے بتایا کہ سال 2022ء میں صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے 495 واقعات ہوئے تھے، سال 2022ء میں 69 پولیس اہلکار دہشت گرد حملوں میں شہید اور 80 زخمی ہوئے تھے جبکہ رواں سال میں اب تک 160 پولیس اہلکار شہید جبکہ 381 زخمی ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے سب سے زیادہ 65 واقعات شمالی وزیرستان میں ہوئے۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں سال 2014ء کے دوران دہشت گردی کے 316 واقعات پیش آئے تھے۔ 2015ء میں 213 واقعات اور اس سے اگلے سال 227 واقعات پیش آئے۔ اسی طرح 2017ء میں 102 دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے اور اگلے سال یہ کم ہو کر 87 ہو گئے۔ سال 2019ء میں دہشت گردی کے 164 واقعات پیش آئے، 2020ء میں 198 واقعات ، سال 2021ء میں 260 واقعات جبکہ سال 2022ء کے دوران 495 واقعات رونما ہوئے ۔
محکمہ انسداد دہشت گردی نے سال 2023ء میں اینٹلی جنس ایجنسیوں کے ہمراہ صوبے بھر میں 1843 آپریشن کیے جن میں 602 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا اور 26 دہشت گردوں کو سزا دی گئی، ان آپریشنز میں 406 گرنیڈ، 13 خود کش جیکٹس ، 110 مختلف اسلحے، 76 پستول اور 9 ہزار 936 راؤنڈز برآمد کیے گئے۔
دہشت گردوں کے زیر استعمال نائٹ ویژن عینکیں
کمیٹی اجلاس میں محکمہ انسداد دہشت گردی نے انکشاف کیا کہ پشاور، باجوڑ اور اورکزئی ایجنسی میں داعش کے لوگ موجود ہیں جبکہ دیگر صوبے میں تحریکِ طالبان پاکستان کے دہشت گرد ہیں۔ اسپیشل انوائیٹی نے کمیٹی کو بتایا کہ دہشت گردوں کے پاس سے امریکی اسلحہ برآمد ہوتا ہے، جبکہ چین سے 3.5 لاکھ روپے میں نائٹ ویژن عینک امپورٹ کی جا رہی ہے، جس کی مدد سے رات کے اندھیرے میں دہشت گرد 1.2 کلومیٹر دور سے سیکیورٹی فورسز کو ہدف بناتے ہیں اور سیدھی سر پر گولی مارتے ہیں۔