انڈین ادویات، جاپانی گاڑیاں اور دیگر اشیا کن روٹس سے کے پی اور پنجاب اسمگل ہوتی ہیں؟

جمعہ 22 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

انڈیا کے ساتھ پاکستان کا کسی قسم کی تجارت  کا کوئی سلسلہ نہیں ہے لیکن انڈین ادویات آسانی سے کے پی اور پنجاب کی مارکیٹ میں مل جاتی ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ایرانی تیل، کمبل، جاپانی گاڑیوں سے لے کر جوس تک آسانی سے خیبر پختونخوا اور پنجاب تک پہنچ جاتے ہیں۔ اسمگلنگ کی یہ تمام اشیا مخصوص روٹ سے ہر جگہ پہنچائی جاتی ہیں۔

بلوچستان اسمگلنگ کا مرکز بن چکا ہے

خیبر پختونخوا کسٹمز اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے سرگرم ہے۔ محکمے کے ایک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اسمگلنگ یا بلیک مارکیٹنگ کو روکنا بہت بڑا چیلنچ ہے جو محدود وسائل میں اتنا آسان نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اسمگلنگ افغانستان اور ایران سے ہوتی ہے جو سب کو معلوم ہے اور ایران اور افغانستان سے اسمگلنگ کا سامان پاکستان پہنچنے کے بعد تمام صوبوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کافی عرصہ پہلے خیبر پختونخوا میں غیر ملکی اشیا کی اسمگلنگ قبائلی اضلاع سے ہوتی تھی لیکن وہ سلسلہ اب تقربیا ختم ہے۔

افسر نے کہا کہ ’جب سے بارڈر پر باڑ لگائی گئی ہے یہاں سے اسمگلنگ 99 فیصد تک ختم ہو گئی ہے اور اب بلوچستان اسمگلنگ کا حب ہے اور تمام علاقوں کو وہیں سے اسمگلنگ کا سامان جاتا ہے‘۔

خیبر پختونخوا میں اسمگلنگ ژوب اور ڈی آئی خان سے ہوتی ہے

خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں تعینات  کسٹم کے ایک اور افسر نے ژوب اور ڈی آئی خان کو اسمگلنگ کا مرکزی روٹ قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے اسمگلنگ کا سامان اسی روٹ سے خیبر پختونخوا اور پنچاب منتقل کیا جاتا ہے اور سب سے زیادہ کارروائیاں بھی اسی روٹ پر ہوئی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ڈی آئی خان بلوچستان سے سے ملحقہ ہے جس سے اسمگلرز صوبے میں آسانی سے داخل ہو جاتے ہیں۔

مین روڈ کے بجائے دورافتادہ گاؤں اسمگلرز کی ترجیح

کسٹم کے افسر نے بتایا کہ بلوچستان سے ڈی آئی خان داخلے کے بعد اسمگلرز غیر معروف روٹ اپناتے ہیں جو مختلف گاؤں سے ہو کر پشاور اور دیگر اضلاع تک پہنچ جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہمیشہ ان جگوں سے جاتے ہیں جہاں ایکسائز یا مقامی پولیس موجود نہ ہو اور نہ وہاں تک آسانی سے رسائی ہو۔

افسر کا کہنا تھا کہ اسمگلرز ایک بار سفر شروع کرتے ہیں تو پھر رکتے نہیں بلکہ سفر مسلسل جاری رکھتے ہیں جبکہ روٹ سے حوالے سے انہیں ان کے کارندے معلومات دیتے رہتے ہیں تاکہ وہ پکڑے جانے سے بچ سکیں۔

انہوں نے کہا کہ عام طور پر 3 یا 4 گاڑیاں قافلے کی صورت میں سفر کرتی ہیں اور اس میں سوار اسمگلرز مسلح بھی ہوتے ہیں جو پولیس یا ایکسائز حکام کو دیکھتے ہی فائرنگ کر دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب تک اس روٹ پر فائرنگ سے ایکسائز کے کئی اہلکار جاں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔

طور خم اور وادی تیراہ

پاک افغان بارڈر پر چیکنگ سخت کرنے اور باڑ کے بعد خیبر پختونخوا سے ملحقہ بارڈر سے سامان کی غیر قانونی ترسیل کم ہوئی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ کنٹینرز کے ذریعے اب بھی افغانستان سے مختلف سامان کو غیر قانونی طور پر خیبر پختونخوا میں لایا جاتا ہے اور اس کام میں پیسہ لگتا ہے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ عمران خان دور میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق روزانہ 7 ارب روپے سے زائد مالیت کے سامان کی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ تاہم انہوں نے اس رپورٹ کی کاپی یا کوئی مزید تفصیل فراہم نہیں کی۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ وادی تیراہ میں امن لشکر کا اہم کردار ہوتا ہے اور وہ کنیٹرز نکلنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ ہفتے میں ایک دن ہی سامان آتا ہے اور اکثر رات کو ہی سب کو پتا ہوتا ہے کہ اس کے اندر کیا ہے۔

طور خم اور تیراہ سے الیکٹرونکس اور کاسیمٹکس کی اسمگلنگ

ذرائع کے مطابق طورخم اور وادی تیراہ سے اسمگلنگ کے ذریعے زیادہ تر الیکٹرونکس اور کاسمیکٹس اور دیگر چیزیں اتی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انڈیا، دبئی ایران اور مغربی ممالک کا مال افغانستان سے منتقل ہوتا ہے جبکہ گاڑیوں کے ٹائر اور اسپیئرپارٹس بھی  اسمگل ہوتے ہیں۔ مال بارڈر سے پشاور اور قبائلی ضلع خیبر کے سنگم پر واقع کارخانو مارکیٹ پہنچایا جاتا ہے اور پھر وہاں سے ملک کے دیگر علاقوں تک پہنچتا ہے۔

کون سی اشیا اسمگل ہوتی ہیں؟

خیبر پختونخوا کی مارکیٹ میں صابن سے لے کر میڈیسن، تیل، خشک خوراک اور گاڑیاں تک اسمگلنگ کے ذریعے آتی ہیں جو کھلے عام مارکیٹ میں مل جاتی ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ کپڑا، ٹائز، انڈین میڈیسن، الیکٹرونکس، کاسیمٹکس کا سامان زیادہ تر خیبر پختونخوا منتقل کیا جاتا ہے جبکہ گاڑیاں، کمبل اور دیگر سامان ایران اور افغانستان سے بلوچستان اور پھر کے پی منتقل کیا جاتا ہے۔ ایرانی تیل کی  بھی اسمگل ہوتا ہے۔

نان کسٹم پیڈ گاڑیاں

مالاکنڈ ڈویژن اور گلگت بلتستان میں اسمگلنگ کی گاڑیاں چلتی ہیں جنہیں نان کسٹم پیڈ کہا جاتا ہے۔ ان گاڑیوں کی کوئی رجسٹریشن نہیں ہوتی اور نہ ہی ان پر کوئی ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔ یہ گاڑیاں جاپانی ہوتی ہیں جو افغانستان کے ذریعے اسمگلنگ سے پاکستان اور پھر مالاکنڈ ڈیثرون پہنچ جاتی ہیں اور ان علاقوں اور شہروں سے ہو کر جاتی ہیں جہاں ان گاڑیوں کی اجازت نہیں ہوتی۔

کسٹم ذرائع کے مطابق  گاڑیوں کی اسمگلنگ مکمل طور پر بلوچستان سے ہورہی ہے اور ان گاڑیوں کو کے پی اور پھر مالاکنڈ ڈیثرون منتقل کیا جاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ گاڑیوں کی اسمگلنگ کے لیے ڈی آئی خان ژوب روٹ کا استعمال کیا جاتا ہے اور یہ کام کرنے والا ایک منظم گروہ ہے جبکہ طاقتور لوگ اس کے پیچھے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مرسیڈیز اور وی ایٹ سے لے کر چھوٹی بڑی ہر قسم کی گاڑی مالاکنڈ میں ملتی ہے اور یہ گاڑیاں اچھی اور مظبوط ہوتی ہیں جو کسٹم حکام کو دیکھ کر برق رفتاری سے نکل جاتی ہیں۔ نان کسٹم پیڈ کروڑوں روپوں کی گاڑی لاکھوں روپے میں مل جاتی ہے اور ٹیکس بھی نہیں ہوتا۔

موٹروے پر چیکنگ کا کوئی نظام نہیں

اسمگلرز کے لیے موٹرویز سب محفوظ اور آسان روٹ ہیں۔ کسٹم ذرائع کے مطابق موٹرویز پر چیکنگ کا کوئی نظام موجود اور نہ ہی وہ موٹرویز پر کارروائی کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بلوچستان سے خیبر پختونخوا اور پھر موٹروے کے ذریعے اسمگلنگ کا مال پنجاب پہنچ جاتا ہے۔

’ہم یہ کام جان پر کھیل کر کرتے ہیں‘

وی نیوز نے ایک ایسے ڈرائیور سے گفتگو کی جو چمن سے سوات نان کسٹم پیڈ گاڑیاں لاتا تھا۔ اس کے مطابق یہ انتہائی مشکل کام ہے جس میں ہر وقت جان کا خطرہ ہوتا ہے۔

امجد (فرضی نام) نے بتایا کہ اگر پیسہ لگاتے تھے تو آسانی ہوجاتی تھی لیکن بغیر پیسوں کے یہ آسان نہیں۔ امجد نے بتایا کہ جگہ جگہ چیک پوسٹس ہوتی تھیں پولیس، کسٹم، آرمی الغرض ہر ایک سے بچ کر نکلتے تو آگے پھر پکڑلیے جانے کا ڈر لگا رہتا تھا اور پولیس والے تو اکثر فائرنگ بھی کرتے تھے۔ امجد نے بتایا کہ 5 ہا 6 سال پہلے تک ایک گاڑی کے 25 سے 40 ہزار روپے ملتے تھے لیکن پھر جب اس کی صحت خراب ہوئی تو اس نے وہ کام چھوڑ دیا۔

’غیر ملکی سامان کی مانگ بہت زیادہ ہے‘

دکانداروں کے مطابق غیر ملکی سامان کی مانگ زیادہ ہے اور خریدار اسے اکثر مقامی مال پر ترجیح دیتے ہیں۔ کارخانو مارکیٹ کے ایک دوکاندار نے بتایا کہ باہر کی اشیا معیار میں اچھی اور قیمت بھی مناسب ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انڈین کاسیمٹکس اور میڈیسن، جاپانی الیکٹرونکس، گاڑیاں اور اسپیئرپارٹس کی مانگ بہت زیادہ ہے۔

اسمگلنگ کے خلاف کارروائیاں

کسٹم حکام اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کارروائیاں کر رہے ہیں جبکہ پولیس اور ایکسائز ٹیمیں بھی معمول کی ڈیوٹی کے دوران اسمگلنگ کا مال پکڑ کر کسٹم کے حوالے کردیتی ہیں۔ کسٹم نے جنوبی اضلاع میں گزشتہ 4 ماہ کے دوران ہونے والی کارروائیوں کی رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق گزشتہ اس عرصے کے دوران پکڑی گئی اشیا کی مالیت 2 ارب 75 کروڑ روپے بنتی ہے۔

کسٹمز کلکٹرڈاکٹر کرم الٰہی نے کسٹمز کارروائیوں کے حوالے سے بتایا کہ اسمگلنگ کے خلاف کارروائیاں مزید تیز کر دی ہیں جبکہ نامساعد حالات اور جنوبی اضلاع میں ابتر سیکیورٹی صورت حال میں بھی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

ڈاکٹرکرم الٰہی نے کارروائیوں کے حوالے سے مزید بتایا کہ گزشتہ 4 ماہ کے دوران جنوبی اضلاع میں 41 نان کسٹم پیڈ گاڑیاں پکڑی گئیں جن میں موٹر کار، ہیوی بائیکس اور دیگر شامل ہیں جبکہ پکڑی گئی نان کسٹم گاڑیوں کی مالیت 13 کروڑ40 لاکھ روپے بنتی ہے۔ اسمگلنگ میں استعمال ہونے والی گاڑیاں بھی تحول میں لی گئیں جن کی مالیت 80 کروڑ 40 لاکھ روپے سے زائد بنتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مختلف مقامات پر ناکا بندی کرکے چیکنگ کے دوران 25 ہزار 511 امریکی ڈالرز اور 4 لاکھ 44 ہزارلیٹراسمگل شدہ ایرانی تیل برآمد کیا گیا۔ ایک کروڑ67 ہزار ڈنڈی سگریٹ (غیرملکی برانڈ) جن کی مالیت 19کروڑ 82 لاکھ روپے بنتی ہے برآمد کیے اور14کروڑ74لاکھ کی اسمگل شدہ اشیا جن میں کپڑا،ٹائرز،چائے ،برقی آلات،ادویات ،خشک دودھ ، موبائل فونز شامل ہیں بھی کسٹم حکام نے برامد کیے ہیں۔

گزشتہ 4 ماہ کے دوران ضبط شدہ اشیا کی مالیت گزشتہ سال کی نسبت زیادہ ہے جبکہ حکام کے مطابق گزشتہ سال ان ہی 4 مہینوں کے دوران صوبے کے جنوبی اضلاع میں مجموعی طور پر صرف41کروڑ74لاکھ روپے مالیت کا سامان پکڑا گیا تھا۔

ڈاکٹرکرم الٰہی نے کہا کہ اسمگلروں کے منظم گروہ کے خلاف کارروائیاں عمل میں لائی جارہی ہیں جبکہ بیشتر اسمگلروں کا تعلق خیبرپختونخوا، بلوچستان اور افغانستان سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کارروائیوں میں تیزی آنے کے بعد اسمگلنگ میں کافی حد تک کم آئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جنوبی اضلاع جن میں بنوں،ڈیرہ اسماعیل خان، کرک، لکی مروت، ٹانک، اورکوہاٹ شامل ہیں میں مزید کارروائیاں تیز کی ہیں۔

ڈاکٹرکرم الٰہی نے وضاحت کی ہے کہ کسٹم ایکٹ کے مطابق اسمگلروں سے پکڑے گئے سامان کی نیلامی ہوگی جس کے لیے شفاف طریقہ کار اپنایا جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp