اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کو ایف آئی اے میں طلبی کا نوٹس معطل کر دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی ایف آئی اے میں طلبی کے نوٹس کے خلاف درخواست کی سماعت جسٹس بابر ستار نے کی، بشریٰ بی بی کی جانب سے سردار لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے بشریٰ بی بی کو آڈیو لیکس اسکینڈل میں وائس میچنگ کے لیے طلب کر رکھا تھا۔
لطیف کھوسہ نے نوٹس معطل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ مرکزی کیس اسی عدالت میں زیرسماعت ہے، جس کی سماعت 30 اکتوبر کو ہونی ہے، کیس زیرالتواء ہونے کے باوجود ایف آئی اے نے 19 ستمبرکوطلبی نوٹس جاری کردیا ۔ ایف آئی اے وائس میچنگ کرنا چاہتی ہے۔
جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ ایف آئی اے کس چیز کے ساتھ وائس میچنگ کرانا چاہتی ہے؟
لطیف کھوسہ نے بتایا کہ نوٹس میں ایف آئی اے نے وائس میچنگ کرنے کا کہا ہے، عدالت نے ایف آئی اے طلبی کا نوٹس معطل کرتے ہوئے آئندہ ہفتے فریقین کودلائل کے لیے طلب کر لیا ۔
واضح رہے کہ جولائی 2022 میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی اور تحریک انصاف کے اس وقت کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ارسلان خالد کے درمیان مبینہ ٹیلی فونک گفتگو کی آڈیو لیک ہوئی تھی۔
یہ مبینہ آڈیو لیک سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ آڈیو میں مبینہ طور پر بشریٰ بی بی ارسلان خالد سے کہہ رہی تھیں کہ مخالفین کے خلاف سوشل میڈیا پر غداری کے ہیش ٹیگ اور ٹرینڈ چلائے جائیں۔
بشری بی بی نے ارسلان خالد سے مزید کیا کہا؟
اس آڈیو میں مبینہ طور پر بشریٰ بی بی کو ارسلان خالد سے یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ خان صاحب (عمران خان) نے آپ کو کہا تھا غداری کا ہیش ٹیگ چلانا ہے، آج کل آپ لوگوں کو بہت ایکٹیو ہونا چاہیے، ان سب کو غداری کے ساتھ لنک کرنا ہے کہ یہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے غداروں کے ساتھ مل گئے ہیں۔
’غدار باہر کی قوتیں بھی ہیں اور وہ سب آپ کو پتا ہے، ٹرینڈ بنا دینا ہے کہ ان کو بھی پتا ہے کہ ملک اور خان کے ساتھ غداری ہو رہی ہے۔‘
بشریٰ بی بی آڈیو میں مزید کہہ رہی تھین کہ’مجھے اور جو وہ فرح ہے نا، اس کے بارے میں انھوں نے بہت گند اڑانا ہے۔ اس کو بھی آپ نے لنک کر دینا ہے کہ ہمیں پتا ہے یہ غداری کون کر رہا ہے۔‘
اس مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست زیر سماعت ہے، درخواست میں وزارت داخلہ، وزارت اطلاعات، چیئرمین پیمرا، بشری بی بی اور ارسلان خالد کو فریق بنایا گیا ہے۔
ایف آئی اے نے اسی آڈیو لیکس کی فرانزک کے لیے بشری بی بی کو طلب کر رکھا تھا۔