خواتین کے استعمال شدہ برانڈڈ سوٹ اب مناسب قیمت پر دستیاب مگر۔۔۔!

اتوار 24 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں کچھ ٹائم سے سوشل میڈیا کے ذریعے استعمال شدہ کپڑے، جوتے، جیولری، پرس وغیرہ کی خریدو فروخت کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ ’تھرفٹ، پری لووڈ، کلیننگ کلوزٹ‘ اور دیگر ناموں سے درجنوں کی تعداد میں سوشل میڈیا پر ایسے اکاؤنٹس موجود ہیں، جن کے پاس خواتین کے بناؤ سنگھار کی مختلف برانڈز کی اچھی حالت میں مگر استعمال شدہ چیزیں ہوتی ہیں، لیکن ان سب میں برانڈڈ کپڑے سر فہرست ہیں، جو سب سے زیادہ فروخت ہوتے ہیں۔ اور گزشتہ چند مہینوں سے اس رجحان نے کافی زور پکڑا ہے۔ یقیناً اس کی ایک بڑی وجہ ملک میں مہنگائی کا بڑھ جانا ہے جس کے باعث خواتین کے ملبوسات کی قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

مگر اس مہنگائی میں بھی سوشل میڈیا پر ’پری لووڈ‘ جیسے منفرد خیال نے خواتین کی زندگیوں میں خوشیوں کے رنگوں کو پھیکا نہیں پڑنے دیا۔

خواتین کی دلچسپی دیکھ کر استعمال شدہ کپڑوں کی فروخت کا کاروبار شروع کیا، عائشہ

اسی حوالے سےبات کرتے ہوئے انسٹاگرام پر ’پری لووڈ‘ کے نام سے استعمال شدہ کپڑوں کا کاروبار کرنے والی عائشہ نے بتایا کہ انہوں نے فیشن ڈیزائننگ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے، مگر حالات اچھے نا ہونے کے باعث وہ نیا کاروبار شروع نہیں کر سکتی تھیں۔

عائشہ کا کہنا ہے کہ ایک تو نیا کاروبار شروع کرنے کے لیے اتنی رقم نہیں تھی اور دوسری جانب اس بات کا بھی اندازہ تھا کہ ملکی حالات ایسے ہیں کہ خواتین کے لیے نئے برانڈڈ کپڑے خریدنا ممکن نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ کچھ ایسا کرنا چاہتی تھیں جس سے انہیں بھی آسانی ہو اور خواتین بھی بآسانی اپنی پسند کے مطابق کپڑے خرید سکیں۔ بس اسی سوچ کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے یہ کام شروع کیا۔

’مجھے انسٹاگرام پر اچانک ایک پوسٹ نظر آئی جس میں کپڑوں کا استعمال شدہ جوڑا فروخت کے لیے لگا ہوا تھا، جو پاکستان کے ایک نامور برانڈ کا تھا اور اس کی قیمت تقریباً اس کی اصلی قیمت سے نصف تھی، اس پوسٹ پر تقریباً 50 کے قریب کمنٹس تھے، خواتین کی دلچسپی کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کیوں نا میں بھی یہ کام شروع کر دوں، میرے پاس میرے کچھ کپڑے موجود تھے جو شاید میں نے 2 یا 3 بار پہنے ہوں گے، بس پیج بنایا اور اپنے کپڑوں کی تصاویر پوسٹ کر دیں اور یوں اس کاروبار کا آغاز ہو گیا، اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید اپنا کاروبار چلانے کا خواب کبھی تکمیل تک نہ پہنچ پاتا‘۔

جو خواتین نیا برانڈڈ سوٹ نہیں خرید سکتی تھیں ان کو موقع میسر آیا ہے

ایک سوال کے جواب میں عائشہ نے بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ استعمال شدہ کپڑوں کی خرید و فروخت کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہے جس کے باعث خواتین کے لیے پوری قیمت پر کپڑے لینا قوت خرید سے باہر ہے، اب استعمال شدہ کپڑوں کی فروخت کے رجحان سے خواتین کو یہ فائدہ پہنچا ہے کہ وہ معیاری مگر سستے داموں کپڑے خرید سکتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہاکہ یہ ایک اچھا قدم اس لیے بھی ہے کہ وہ خواتین جو برانڈڈ سوٹ پہننے کی خواہش تو رکھتی ہیں مگر وسائل نہ ہونے کی وجہ سے خرید نہیں سکتیں وہ باعزت طریقے سے اپنی یہ خواہش پوری کر سکیں گی۔

انہوں نے کہاکہ خواتین کا رجحان اس قدر بڑھا چکا ہے کہ کپڑوں کی تصاویر انسٹاگرام پر لگاتے ہی میسجز آنا شروع ہو جاتے ہیں اور اکثر سوٹ تو ہاتھوں ہاتھ ہی بک جاتے ہیں۔

10 ہزار کا سوٹ 5 ہزار میں مل جائے تو اور کیا چاہیے، انیلا

32 سالہ انیلا کا تعلق لاہور سے ہے، وہ بھی انسٹاگرام اور فیس بک گروپ کے ذریعے استعمال شدہ کپڑے بیچ کر اپنے بچوں کے اخراجات پورے کرتی ہیں اور وہ خواتین جو پیسوں کی وجہ سے اپنی خواہشات کو رد کر دیتی ہیں ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتی ہیں۔

انیلا کہتی ہیں کہ انہوں نے آن لائن استعمال شدہ کپڑوں کی خرید وفروخت کا کاروبار تقریباً 5 ماہ قبل شروع کیا تھا۔

انیلا کے مطابق وہ نا صرف کپڑے فروخت کرتی ہیں بلکہ اگر انہیں یوں کوئی سوٹ خود کے لیے پسند آ جاتا ہے تووہ اپنے لیے بھی خرید لیتی ہے۔ انیلا کا کہنا ہے کہ یہ ان لڑکیوں کے لیے بہت بڑی سہولت ہے جو برانڈڈ سوٹ دیکھ کر خواہش ہی کرتی رہ جاتی ہیں۔

’صرف عام خواتین ہی نہیں بلکہ اچھی خاصی بلاگرز بھی رابطہ کرتی ہیں اور کپڑے خریدتی ہیں، اس میں کوئی برائی نہیں ہے جب آپ کو ایک چیز 10 ہزار کے بجائے 5 ہزار میں مل رہی ہے اور وہ بھی بلکل اچھی حالت میں تو کیوں کوئی 10 ہزار میں خریدے گا‘۔

ایک سوٹ پر 20 فیصد کمیشن رکھتی ہوں

ایک سوال کے جواب میں انیلا نے بتایا کہ اب تو خواتین باقاعدہ کپڑوں کی تصاویر بھیجتی ہیں کہ انہیں فلاں برانڈ کا سوٹ چاہیے۔

خرید و فروخت کے طریقہ کار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انیلا نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر اکاؤنٹس کے نام ہی ایسے ہوتے ہیں کہ لوگ سمجھ جاتے ہیں۔ خواتین کو جب اپنے کپڑے بیچنے ہوں تو وہ تصاویر کے ساتھ قیمت لکھ کر بھیج دیتی ہیں اور اسی طرح اگر کسی نے کوئی سوٹ خریدنا ہو تو وہ ہم سے براہِ راست رابطہ کر کے خرید لیتی ہیں۔

اپنے کمیشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انیلا نے بتایا کہ وہ ایک سوٹ پر 20 فی صد خود رکھتی ہیں اور باقی رقم جس کا سوٹ ہوتا ہے اس کے حصے میں جاتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ میں سوٹ کو سوشل میڈیا پر لگانے سے پہلے دیکھتی ہوں کہ اس کی حالت کیسی ہے اور پھر اسی حساب سے ریٹ لگایا جاتا ہے کیونکہ قیمت مناسب ہی رکھی جاتی ہے تاکہ لوگ خرید سکیں ورنہ ہر کوئی برانڈ سے ہی جا کر کیوں نہ خرید لے۔

’میرے اس کاروبار کا مقصد بھی یہی تھا کہ کوئی بھی خاتون احساس کمتری کا شکار نہ ہو، ہر کسی کی دسترس میں برانڈڈ کپڑے ہوں اور ہر خاص و عام خاتون خرید سکے۔ معاشرے میں پہناوے کی جو تفریق ہے اسے ختم ہونا چاہیے‘۔

اب متوسط گھرانے کی خواتین بھی برانڈڈ سوٹ پہن سکتی ہیں، سدرہ

سدرہ بی ایس کی طالبہ ہیں، انہوں نے بتایا کہ وہ ’پری لووڈ‘ اور دیگر ناموں سے استعمال شدہ کپڑے فروخت کرنے والے پیجز سے کافی سوٹ خرید چکی ہیں، کہتی ہیں کہ مہنگائی بڑھ جانے کے بعد تو نا ممکن ہوتا جا رہا ہے کہ انسان نئے برانڈڈ کپڑے خرید سکے۔

’چونکہ وہ ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتی ہے جہاں برانڈڈ کپڑوں کے حوالے سے آگاہی نہیں ہے جس کی وجہ سے جب بھی وہ اپنی والدہ سے کہتیں تو وہ یہ کہہ کر چپ کروا دیتی تھیں کہ یہ امیروں والے شوق پالنے سے گریز کرو‘۔

سدرہ کہتی ہیں کہ یونیورسٹی میں سب لڑکیاں برانڈڈ کپڑوں کی جب بھی بات کرتی تھیں تو میں سوچتی تھی کہ میں بھی پڑھ لکھ کر جب کمانے لگوں گی تو برانڈڈ کپڑے ہی لیا کروں گی، مگر اس آن لائن کاروبار کی وجہ سے اب ہر لڑکی اپنا شوق پورا کر سکتی ہے۔

کم رقم میں برانڈڈ سوٹ ملنا غریب کے لیے خوشی کا مقام ہے، ندا احمد

ندا احمد ایم گھریلو خاتون ہیں جنہوں نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں برانڈڈ کپڑوں نے لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیا ہے جبکہ کپڑے جسم کو ڈھانپنے کے لیے ہی ہوتے ہیں نا کہ کسی کو دکھانے کے لیے، ان کے مطابق برانڈڈ کپڑوں کی گزشتہ چند برسوں سے ایک خطر ناک لہر چلی ہے جس نے غریب طبقے کی عزت نفس کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ استعمال شدہ کپڑوں کے اس کاروبار سے غریب کی قوت خرید میں بھی اب یہ کپڑے ہیں جو سب سے زیادہ خوشی کی بات ہے کیوں کہ کم رقم میں برانڈڈ سوٹ ملنا غریب کے لیے سب سے بڑھ کر خوشی کا مقام ہے۔

غریبوں کو مفت میں ملنے والے سوٹ بھی اب فروخت ہونا نا شروع ہو جائیں

ندا احمد نے ساتھ ہی اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ اس سے ایک نیا نقطہ یہ بھی جنم لے سکتا ہے کہ جو لوگ پہلے اپنے پہنے ہوئے کپڑے ضرورت مند افراد کو دے دیا کرتےتھے اب وہ کہیں پیسوں کے لالچ میں بیچنے نہ شروع ہوجائیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ضرورت مند افراد خوشیوں سے محروم ہو جائیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp