پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ملک کے انتخابی عمل میں فوج کی مداخلت کے الزامات مکمل مضحکہ خیز اور بے بنیاد ہیں، عمران خان کی پارٹی اور اس کے کارکنوں پر 9 مئی کے واقعات میں توڑ پھوڑ کے الزامات ہیں، ملک میں آئندہ عام انتخابات عمران خان اور ان کی پارٹی کے بغیر بھی منصفانہ ہو سکتے ہیں۔
امریکا کی خبر رساں ایجنسی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ملک میں انتخابات پاکستان کی افواج نہیں بلکہ اس کا آئینی ادارہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کرانے جا رہا ہے جس کا سربراہ اس وقت خود سابق وزیر اعظم عمران خان نے تعینات کیا تھا، پھر وہ کیوں الیکشن کمیشن کے خلاف کوئی غلط لفظ استعمال کریں گے۔
مزید پڑھیں
انہوں نے اس امکان کو یکسر مسترد کر دیا کہ پاکستان کی فوج اس بات کو یقینی بنانے کے لیے نتائج میں رد و بدل کرے گی کہ جیل میں بند سابق وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی جیت نہ سکے۔
عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد ملک شدید سیاسی بحران کا شکار ہے
نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اپریل 2022 سے جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے چیئرمین عمران خان کو پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹایا گیا تو تب سے پاکستان شدید سیاسی بحران کا شکار ہے۔
انہوں نے امریکی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ عمران خان کو اگست کے اوائل میں بدعنوانی کے الزامات میں گرفتار کیا گیا تھا اور 3 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی ، جسے بعد میں معطل کردیا گیا تھا حالانکہ وہ اب بھی جیل میں ہیں۔
پاکستان بدترین معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک کو اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحرانوں کا بھی سامنا ہے اور گزشتہ موسم گرما کے تباہ کن سیلاب سے بھی چھٹکارا حاصل کر رہا ہے جس میں کم از کم 1700 افراد جاں بحق اور لاکھوں گھر اور کھیت تباہ ہوگئے تھے۔
انوار الحق کاکڑ نے مزید کہا کہ جب الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کا حتمی تعین کرے گا تو ان کی حکومت اسے تمام تر مالی، سیکیورٹی یا دیگر متعلقہ ضروریات فراہم کرے گی۔
عمران خان کی سزا کو کالعدم قرار دینے کی سفارش نہیں کروں گا، انوار الحق کاکڑ
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ ججوں سے عمران خان کی سزا کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کریں گے تاکہ وہ انتخابات میں حصہ لے سکیں تو نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ وہ عدلیہ کے فیصلوں میں مداخلت نہیں کریں گے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ عدلیہ کو کسی بھی سیاسی مقصد کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
قانون کی عمل داری کا ’سیاسی امتیازی‘ سلوک سے موازنہ نہیں کر سکتے
انوار الحق کاکڑ نے کہاکہ’ ہم ذاتی انتقام پر کسی کا پیچھا نہیں کر رہے ہیں لیکن ہاں، ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ قانون سب کے لیے برابر ہو۔
عمران خان ہوں یا کوئی اور سیاست دان جو اپنے سیاسی طرز عمل کے لحاظ سے ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرے گا تو ریاستی قوانین کی عمل داری کو یقینی بنایا جائے گا، ہم قانون کی اس عمل داری کا ’سیاسی امتیازی‘ سلوک سے موازنہ نہیں کر سکتے۔
منصفانہ انتخابات عمران خان اور ان کی پارٹی کے بغیر بھی ہو سکتے ہیں، انوار الحق
نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے 9 مئی کو عمران خان کی ابتدائی گرفتاری کے بعد ملک کو ہلا کر رکھ دینے والے تشدد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ منصفانہ انتخابات عمران خان یا ان کی پارٹی کے سینکڑوں ارکان جو ملک میں توڑ پھوڑ اور آتش زنی سمیت دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے جیل میں ہیں، کے بغیر بھی ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کی پارٹی میں ہزاروں افراد جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھے، وہ سیاسی عمل آگے چلائیں گے بھی اور انتخابات بھی میں حصہ لیں گے۔
فوج پر الزامات ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ ہیں، ان پر توجہ نہیں دیتا، نگراں وزیر اعظم
حکومت اور افواج پاکستان کے درمیان تعلقات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ’پاکستان میں افواج پاکستان پر بعض لوگوں کے الزامات ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ ہیں‘ جس پر وہ کوئی توجہ نہیں دیتے۔
انہوں نے کہا کہ میری نگراں حکومت کے فوج کے ساتھ انتہائی مضبوط اور اچھے ورکنگ تعلقات ہیں جو کھلے عام اور سب کے سامنے ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ ہمیں سول ملٹری تعلقات کے چیلنجز کا سامنا ہے، میں اس سے انکار نہیں کر رہا لیکن تعلقات میں عدم توازن کی بہت مختلف وجوہات ہیں۔
کئی دہائیوں سے سول اداروں کی کارکردگی خراب رہی ہے
ان کا کہنا تھا کہ ایک ماہ حکومت کی قیادت کرنے کے بعد ان کا ماننا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے سول اداروں کی کارکردگی خراب رہی ہے، جبکہ فوج نظم و ضبط اور تنظیمی صلاحیتوں کی حامل ہے اور گزشتہ 4 دہائیوں میں اس میں مزید بہتری آئی ہے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ موجودہ فوجی تنظیم کو کمزور کرنے کی کوششوں کی بجائے سویلین اداروں کی کارکردگی کو بتدریج بہتر بنایا جائے کیونکہ اس کے علاوہ ہمارا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر فلیش پوائنٹ رہا ہے
انہوں نے علاقائی امور پر سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایشیا کے خطے میں ایک بڑا مسئلہ، مسئلہ کشمیر ہے، جو 1947 میں برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے خاتمے کے بعد سے ہندوستان اور پاکستان کے لیے فلیش پوائنٹ رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اس تنازع پر 2 جنگیں ہو چکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ5 اگست 2019 میں بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت نے مسلم اکثریتی خطے کی نیم خودمختاری ختم کرنے کا فیصلہ کیا، اسے ریاست کا درجہ، اس کا علیحدہ آئین، زمین اور ملازمتوں پر وراثت میں ملنے والے تحفظ کو ختم کر دیا۔
دُنیا کو تنازع کشمیر کی سنگینی کا اداراک نہیں ہے، انوار الحق
نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت نے کشمیر میں 9 لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں اور اس کے عوام ’ ایک بڑی جیل‘ میں رہ رہے ہیں جس کا بھارت کے پاس کوئی سیاسی، قانوانی جواز یا حق نہیں ہے، بھارت کے یہ تمام تر اقدامات اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق حق خودارادیت اور اقوام متحدہ کے ریفرنڈم کا مطالبہ کرنے والی قرارداد کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
سوال ہے، اگر تنازع کشمیر یورپ یا امریکا میں ہوتا تو کیا یہی ’بے حس رویہ‘ ہوتا؟
انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا کی توجہ یوکرین اور روس کی جنگ پر مرکوز ہے لیکن دُنیا کو مسئلہ کشمیر کی سنگینی کا ادراک نہیں ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر کشمیر یورپ یا شمالی امریکا میں ہوتا تو کیا تب بھی اس کے حل کے لیے ’بے حس رویہ‘ ہوتا۔
انوار الحق کاکڑ نے کہاکہ ’اس تنازع میں سب سے اہم فریق کشمیری عوام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہ تو ہندوستان اور نہ ہی پاکستان کا مسئلہ ہے بلکہ کشمیری عوام کو اپنی شناخت اور اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔
بھارت کشمیریوں کاحق سلب کر کے بڑی جمہوریت کا دعویٰ نہیں کر سکتا
انہوں نے کہا کہ ہندوستان سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن وہ استصواب رائے کے بنیادی اور جمہوری اصول سے انکار کر رہا ہے۔ تو پھر وہ کس طرح کی جمہوریت پر فخر کر رہے ہیں؟‘
افغانستان کی طرف سے ’ کچھ سنگین سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے‘
امریکا اور نیٹو کے انخلا کے بعد 2021 سے طالبان کے زیر اقتدار ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے بارے میں کاکڑ نے پاکستانی طالبان یا ٹی ٹی پی، داعش اور دیگر انتہا پسند گروہوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو افغانستان کی طرف سے ’کچھ سنگین سیکیورٹی چیلنجز ہیں‘۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت نے طالبان سے کالعدم ٹی ٹی پی کی قیادت اور جنگجوؤں کی حوالگی کی درخواست کی ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ کابل میں حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں، لیکن اس بارے میں میرے پاس مزید معلومات نہیں ہیں جو میں یہاں شیئر کر سکوں۔
انوار الحق کاکڑ سے پوچھا گیا کہ ان کا تعلق پاکستان کے سب سے کم آبادی والے اور کم ترقی یافتہ صوبے سے ہے جہاں سے وہ پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے اور پھر انہیں نگراں وزیر اعظم کے طور پر منتخب کر لیا گیا تو وہ کیسا محسوس کرتے ہیں؟۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا، ’یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے‘۔ مجھے لگتا ہے کہ میں کبھی بھی اس کا مستحق نہیں تھا لیکن اسے میں خدا کی ایک خصوصی عطا ہی کہہ سکتا ہوں‘۔
مستقبل میں تعمیری سیاسی کردار ادا کروں گا، انوار الحق کاکڑ
قانون کے مطابق وہ نگراں وزیر اعظم ہونے کے باعث انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے لیکن کاکڑ کا کہنا ہے کہ مستقبل میں وہ اپنے معاشرے میں تعمیری سیاسی کردار ادا کرنے کی امید رکھتے ہیں۔