ترقی یافتہ ممالک بے حس کیوں، کیا پناہ گزینوں کا مسئلہ انسانی المیہ بنتا جا رہا ہے؟

اتوار 24 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہر گزرتے سال کے ساتھ عالمی سطح پر نقل مکانی کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ رواں سال مئی میں اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونے والے افراد کی تعداد 110 ملین سے تجاوز کر گئی ہے، لیکن اس کے باوجود اس رجحان کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آ رہا ہے۔

بحیرہ روم اور انڈومان کے سمندروں سے لے کر یورپ، امریکا اور میکسیکو کی سرحدوں تک، پناہ گزین اور تارکین وطن ہر سال ہزاروں کی تعداد میں خطرناک سمندری گزرگاہوں اور زمینی راستوں سے گزرتے ہوئے اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔

چند دنوں کے دوران 120 سے زیادہ چھوٹی کشتیاں لامپیڈوسا پہنچی ہیں

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ چند دنوں کے دوران 120 سے زیادہ چھوٹی کشتیاں لامپیڈوسا پہنچیں، جس سے صرف مقامی استقبالیہ مرکز میں لوگوں کی تعداد بحیرہ روم کے جزیرے کی کل وقتی آبادی سے زیادہ ہو گئی۔

اٹلی کی وزارت داخلہ کے مطابق رواں سال اب تک ایک لاکھ 27 ہزار سے زیادہ تارکین وطن سمندری راستے سے ان کے ملک پہنچ چکے ہیں جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں تقریباً دوگنا ہیں۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے اسسٹنٹ ہائی کمشنر برائے آپریشنز رؤف مازو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس کے موقع پر ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ تنازعات اور تشدد روایتی طور پر نقل مکانی کی بنیادی وجوہات ہیں لیکن موسمیاتی تبدیلی اور معاشی عدم استحکام بھی اس نقل مکانی کے ذمہ دار ہیں۔

گزشتہ 10 سالوں میں پناہ گزینوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے

ان کا کہنا تھا کہ ہم گزشتہ 10 سالوں میں اس تعداد میں تیزی دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے ملک بدری اور اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھا ہے۔

صومالیہ میں 5 سال کی خشک سالی کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس خشک سالی کے نتیجے میں یہاں پر سب سے زیادہ جھڑپیں پانی تک رسائی کے لیے ہوئیں اور بالآخر ان جھڑپوں سے تنگ لوگوں نے نقل مکانی کا راستہ اپنایا۔

انہوں نے بتایا کہ ماضی میں ہم نقل مکانی کو صرف لوگوں کے ایک گروہ کے طور پر دیکھتے تھے جو آپس میں لڑا کرتے تھے اور پھر سرحد پار کر کے دوسرے ممالک میں پناہ لے لیتے تھے۔اب ہم یہ نہیں دیکھتے کہ آخر یہ لوگ کیوں اور کس بات پر لڑ رہے ہیں؟۔

واضح رہے کہ جیسے جیسے دنیا بھر میں پناہ گزینوں، مہاجرین اور بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، اسی طرح تارکین وطن کے خلاف بیان بازی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

ملک ہنگری کے وکٹر اوربان اور فرانس کی میری لی پین سے لے کر سابق برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور پولینڈ کے سابق وزیر اعظم جاروسلاؤ کاچنسکی تک مختلف یورپی رہنماؤں اور عہدیداروں نے تارکین وطن کے خلاف سخت بیانات دیے ہیں۔

یورپ کی تارکین وطن سے متعلق سخت پالیسیوں اور نگرانی کی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے باوجود بحیرہ روم میں لوگوں کی اسمگلنگ کرنے والے نیٹ ورکس نے ثابت کیا ہے کہ وہ اس سب کے باوجود بھی متحرک رہ سکتے ہیں۔

 گلوبل انیشی ایٹو اگینسٹ انٹرنیشنل آرگنائزڈ کرائم سے وابستہ تیونس کی محقق تسنیم عبدالرحیم نے امریکا کی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ تیونس کے وسیع تر خطے میں تمام اعداد و شمار ظاہر کر رہے ہیں کہ پناہ گزینوں اور تارکین وطن کی آمد میں اضافہ جاری رہے گا۔

اگرچہ یورپ کے ساحلوں پر پہنچنے والے پناہ گزینوں پر خوف و ہراس بڑھ رہا ہے ، لیکن رؤف مازو کے تبصروں سے پتہ چلتا ہے کہ نقل مکانی کے بحران کا خمیازہ ان ممالک کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے جن کے پاس بہت کم وسائل ہیں۔

110 ملین لوگ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں

انہوں نے کہاکہ ’میں جن 110 ملین لوگوں کے بارے میں بات کر رہا ہوں ان میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو اندرونی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 75 فیصد پناہ گزین کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں مقیم ہیں۔ لہٰذا لوگ نام نہاد امیر ممالک کی طرف نہیں بھاگ رہے ہیں۔

سب سے زیادہ پناہ گزین انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک میں آباد ہیں، رؤف مازو

یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق 46 کم ترقی یافتہ ممالک عالمی جی ڈی پی میں 1.3 فیصد سے بھی کم حصہ رکھتے ہیں اور اس کے باوجود تمام پناہ گزینوں میں سے 20 فیصد سے زیادہ یہاں ان ممالک میں آباد ہیں۔

رؤف مازو نے کہا کہ بنیادی طور پر کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں پناہ گزینوں کی آمد ان ممالک کے لیے بھی ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے، جوں جوں عالمی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے، ان کم آمدنی والے ممالک کے اپنے عوام مسائل کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ’چونکہ وہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک ہیں، لہٰذا انہیں پہلے سے ہی مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے۔

رؤف مازو کے مطابق، 15 اپریل کو سوڈانی مسلح افواج اور نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان تنازع اور جھڑپوں کے آغاز کے بعد 10 لاکھ سے زیادہ افراد سوڈان سے بھاگ کر ہمسایہ ممالک، خاص طور پر چاڈ، جنوبی سوڈان اور مصر میں پہنچ چکے ہیں۔

سوڈان کے بیشتر ہمسایہ ممالک پہلے ہی اپنے اندرونی بحرانوں کا شکار ہیں اور ان میں سے کئی پہلے ہی لاکھوں پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہے ہیں۔

چاڈ جیسے غریب ملک میں 6 لاکھ پناہ گزین پہنچ چکے ہیں، رؤف مازو

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں یقین ہے کہ اب ہمارے پاس تقریباً 4 لاکھ پناہ گزین ہیں جو چاڈ پہنچ چکے ہیں اور ان کی تعداد تقریباً 6 لاکھ تک پہنچ چکی ہے، لہٰذا ہم ایک ایسے ملک میں 10 لاکھ کے قریب پناہ گزینوں کو پناہ دے رہے ہیں جو معاشی طور پر انتہائی کمزور ہے۔یہ لوگ ایک ایسی جگہ پر پہنچ چکے ہیں جسے کئی عرصے سے خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جنوبی سوڈان کو بھی سوڈان سے لوگوں کی آمد کا سامنا کرنا پڑا ہے ان میں سے بہت سے جنوبی سوڈانی ہیں جو اپنے ہی ملک میں تنازعات کی وجہ سے بے گھر ہوگئے ہیں۔

رؤف مازو نے کہا کہ سوڈان کے حالیہ تنازع کے آغاز کے بعد سے اب تک تقریباً 50 ہزار افراد جنوبی سوڈان میں داخل ہو چکے ہیں اور وہ ایک ایسے ملک میں واپس چلے گئے ہیں جہاں سلامتی، سیاسی، گورننس اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی جیسے مسائل پہلے سے ہی موجود ہیں۔

سوڈان میں پناہ گزینوں کا معاملہ المیہ بنتا جا رہا ہے

ان کا کہنا ہے کہ فی الحال سوڈان ان ممالک میں سے ایک ہے جنہیں امداد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ رؤف مازو نے کہا کہ سوڈانی پناہ گزینوں اور اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درکار ایک ارب ڈالر کی فنڈنگ میں سے ’یو این ایچ سی آر‘ کو اب تک صرف 200 ملین ڈالر ملے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے پاس وسائل نہ ہونے کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ملک چھوڑنے والے لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کے لیے صحت کی دیکھ بھال دستیاب اور قابل رسائی ہو۔

بین الاقوامی برادری کی مدد سے ہمیں اس بات کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی کہ ان پناہ گزینوں کو صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات فراہم کی جائیں جن کی ان کو اشد ضرورت ہے۔

ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ انہیں پانی دستیاب ہو۔ ہمیں اس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ان کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقع بھی دستیاب ہوں۔

یو این ایچ سی آر کی ٹیمیں کمزور لوگوں کی رجسٹریشن کا کام کر رہی ہیں

ان کا کہنا تھا کہ ’یو این ایچ سی آر‘ کی ٹیمیں خطے میں سرگرم عمل ہیں اور سرحدی مقامات پر استقبالیہ مراکز قائم کر رہی ہیں تاکہ معاشی طور پر یا صحت کے اعتبار سے کمزور لوگوں کی رجسٹریشن اور شناخت کی جا سکے اور خوراک اور پانی جیسی بنیادی امداد فراہم کی جا سکے۔

رؤف مازو کے مطابق موجودہ تنازعات کے پیش نظر ’یو این ایچ سی آر‘ کا روایتی نقطہ نظر اب مناسب نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ ’ کئی سالوں سے ہم اس اُمید کے ساتھ ان ممالک کی مدد کر رہے تھے کہ پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والے لوگ زیادہ دیر تک ان ممالک میں نہیں رہیں گے اور وہ حالات بہتر ہونے پر جلد ہی واپس اپنے آبائی علاقوں میں چلے جائیں گے۔

بدقسمتی سے لوگ 20 سالوں سے پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں

بدقسمتی سے ہم نے دیکھا ہے کہ لوگ 10 سال، 15 سال، 20 سال تک پناہ گزین کیمپوں میں ہی رہ رہے ہیں، ہم اب جس چیز پر زور دینے کی کوشش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ان مہاجرین کو انہی ممالک میں شامل یا ان کا انضمام یہاں ہی کیا جائے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے ممالک اس بات کا خیرمقدم بھی کر رہے ہیں۔

رؤف مازو نے اردن میں شامی پناہ گزینوں، کینیا میں پناہ گزینوں اور کولمبیا میں وینزویلا کے شہریوں کی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایسے بہت سے ممالک نے مکمل طور پر یا جزوی طور پر اس نقطہ نظر کو اپنایا ہے جو ان پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں کام کرنے اور معاشرے کا حصہ بننے کی اجازت دیتے ہیں۔

رؤف مازو نے بتایا کہ ’بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور علاقائی مالیاتی ادارے بشمول افریقی ترقیاتی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، بین الامریکی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن نے ’یو این ایچ سی آر‘ اور علاقائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے تاکہ پناہ گزینوں کو خود کفیل بنایا جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp