’عشق میں ہم تمہیں کیا بتائیں‘

پیر 25 ستمبر 2023
author image

مشکور علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اس دن سے مرزا کا نِک نیم ’نورا‘ پڑ گیا حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ بچپن میں رس گلے شوق سے کھانے اور گول مٹول چہرہ ہونے کی بنا پر گھر اور محلے والے اسے پیار سے’گلو‘ کہا کرتے تھے۔

ہوا یوں ایک شام ہم سب دوست بیٹھے اپنے اپنے معاشقے بیان کر رہے تھے کٹھے میٹھے، کچے پکے اور سچے جھوٹے معاشقے۔ اچانک عارف بولا یار ’گلو‘ سے بھی پوچھو اس نے بھی کوئی عشق لڑایا کہ نہیں؟ میں نے لقمہ دیا ’اب گلو جیسا ہَوَنَّق بھی محبت کرے گا، کیوں گلو میاں؟‘ اس پر زور دار قہقہہ پڑا۔

گلو مونگ پھلی کھاتے ہوئے سٹپٹا کر بولا ’کیوں میرے سر پر سینگ ہیں، میں محبت کیوں نہیں کر سکتا۔‘

خالد بولا ’سینگ ہوتے تو شاید کوئی محبت کی نظر سے دیکھ بھی لیتا۔‘

کمرے میں گونجتے قہقہوں کی لَو مدہم ہوئی تو گلو بولا ’لو پھر آج تم لوگ یہ قصہ بھی سن ہی لو۔‘ ہم سب پھٹی پھٹی نظروں سے گلو کی طرف دیکھنے لگے اور وہ بولتا چلا گیا ۔ ۔ ۔

’میں گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک ماہ کے لیے اپنے ماموں کے پاس لاہور چلا جاتا تھا، پرانی انار کلی میں ان کا ایک بوسیدہ سا مکان تھا، مکان کے گراؤنڈ فلور پر مالک مکان جبکہ بالائی منزل پر بنے ہوئے دو کمروں میں ماموں اپنے دو کمسن بچوں اور ممانی کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ مالک مکان اپنی اکلوتی بیٹی بانو کے ساتھ اکیلے ہی رہتے تھے، بانو کی امی اسے جنم دے کر چل بسی تھیں۔ جب میں ایف اے کے سالانہ امتحانات دے کر آخری بار ماموں کے گھر رہنے گیا تو اس دوران بانو کو مجھ سے عشق ہوگیا۔ وہ بہت شریر تھی، اس کے نخرے، شوخی اور شرارتیں تو مجھے پسند تھیں لیکن مجھے یہ اچھا نہیں لگتا تھا وہ مجھے’نورا‘ کہہ کر پکارے۔‘

’وہ اکثر ممانی کے پاس آکر بیٹھی رہتی تھی ایک روز اس نے مجھے ’نورا‘ کہہ کر بلایا تو ممانی فوراً پلٹ کر بولیں ’ہیں یہ نورا کون ہے بھئی؟‘ بانو نے ہنستے ہوئے انہیں بتایا ’اور کون آپ کا بھانجا۔‘

ایک دن یونہی سب مل کر بیٹھے بانو کے گھر ٹی وی پر میچ دیکھ رہے تھے کہ بانو نے کسی کام کے سلسلے میں مجھے ’نورا‘ کہہ دیا۔ اس پر اس کے والد صاحب کافی برانگیختہ ہوئے اور بانو کو خوب ڈانٹ پلائی ’بانو وہ تم سے بڑا ہے، تمیز سے بات کیا کرو۔‘

’ابا جی مجھے ان کا نام معلوم نہیں، میں نے شکل کی مناسبت سے رکھ لیا تھا‘ بانو نے وضاحت کی۔ اس سے پہلے کہ ابا جی کچھ اور کہتے ماموں جان نے بانو کی جان خلاصی کرواتے ہوئے کہا ’شوکت صاحب یہ دونوں ہم عمر ہیں کوئی بات نہیں اگر بانو ہنسی مذاق میں اسے ’نورا‘ کہہ لیتی ہے، بیٹی ویسے ہم مرزا کو پیار سے ’گلو‘ کہتے ہیں۔‘

اس دن کے بعد بانو سب کے سامنے مجھے ’گلو‘ کہہ کر پکارتی جبکہ اکیلے میں اس کے لیے میں اب بھی’نورا‘ ہی تھا۔ میں بارہ گوٹ بہت اچھی کھیلتا تھا اور میں نے بانو پر اپنے کھیل کی دھاک بھی بٹھا دی تھی۔ ان دنوں بانو لائبریری سے رومانوی کہانیاں پڑھ پڑھ کر کافی رومانٹک ہو چلی تھی اور دوران گفتگو وہ دل ہی دل میں کہانیوں کے ہیرو سے میرا موازنہ کیا کرتی تھی چونکہ دستیاب ہمیشہ عدم پر غالب ہوتا ہے لہٰذا میں ہی اس کی فرسٹ چوائس تھا۔

ایک دن تو اس نے مجھ سے کہہ ہی دیا ’تم سچ مچ میرے ہیرو بن سکتے ہو‘ لیکن میرے اس جواب پر وہ ہنسں پڑی ’کیا تم فلموں میں کام کرناچاہتی ہو۔‘ بہرحال چند دنوں بعد اس نے گھر سے اپنی سہیلی کی سالگرہ پر جانے کا بہانہ کیا اور مجھے فلم دکھانے لے گئی، فلم کا نام تھا ’میرا نام ہے محبت۔‘ بانو نے وقفہ نکال کر پوری فلم میرے کندھے پر سر رکھ کر دیکھی اس روز مجھے پتا چلا کہ سینما ہال میں اندھیرا کرکے فلم کیوں دیکھتے ہیں۔ (اس پر کمرے میں پھر قہقہہ بلند ہوا)۔

ایک روز دوپہر کے وقت اس نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور ایک ناول میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولی ’اسے غور سے پڑھنا پھر اس پر بحث کریں گے۔‘ اگلے روز وہ چھت پر کپڑے سکھانے کے لیے آئی تو میں بھی ڈور اور پتنگ ہاتھ میں لیے چھت پر آ دھمکا۔ میں نے جلدی جلدی اسے کپڑے نچوڑ کر دیے تاکہ ناول پر بحث کا وقت نکل آئے۔ بانو نے اپنی سرخ پھولوں والی قمیص کو تار پر ڈال کر بالٹی کا ہینڈل ہاتھ میں پکڑا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑی ’کوملتا‘ سے پوچھا ’کیسا لگا یہ ناول؟ میں نے کہا بالکل بور میرے تو پلے ہی کچھ نہیں پڑا۔‘ اس نے حیرت سے پوچھا ’وہ کیوں‘ میں نے وضاحت کی کہ ’ناول میں جگہ جگہ تو لائنیں سرخ مار کر سے انڈر لائن کی ہوئی تھیں وہ میں نے پڑھی نہیں۔‘ بانو نے کہا ’وہ تو میں نے خاص طور پر انڈر لائن کی تھیں‘۔ یہ کہہ کر اس نے بالٹی میرے سر پر اوندھی کی اور پیر پٹختی ہوئی سیڑھیاں اتر گئی۔ اس کا جملہ آج بھی میرے دل پر نقش ہے ’تم تو واقعی نورے ہو۔‘

اس دن مجھے بانو پر بے حد غصہ آیا کہ اس نے میرے منہ پر بالٹی اوندھی کردی تھی، بالٹی اتارتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے میری ٹھوڑی کے نیچے مکا مارا ہے، دو مکے مسلسل لگے تو مجھے ہوش آیا کہ بالٹی کا ہینڈل سائیڈ پر کرکے سر بالٹی سے نکلے گا۔ میں نے اپنا غصہ ہینڈل پر نکالا اور حفظ ماتقدم کے طور پر اسے نکال کر ہی پھینک دیا کہ ’نہ پڑھوں گا ناول اور نہ اوندھی ہوگی بالٹی۔‘

میری چھٹیاں بھی ختم ہو رہی تھیں اور اب ویسے بھی میرا دل بانو کی ناراضی کی وجہ سے پریشان تھا، میں نے گھر واپس جانے کا اعلان کیا تو شوکت صاحب نے مجھے رات کے کھانے پر مدعو کرلیا، ماموں اور ممانی نے بھی میرے ساتھ کھانا کھایا۔ بہت مزیدار کھانا بنا ہوا تھا، بانو کا کھِچا کھِچا اور چُپ رہنا صاف ظاہر کر رہا تھا کہ وہ میرے واپس جانے پر خوش نہیں۔

کھانے کے کچھ دیر بعد تک ماموں ممانی نے بھی میری اور شوکت صاحب کی گفتگو میں حصہ لیا پھر وہ اوپر چلے گئے جبکہ شوکت صاحب نے مجھے زور دے کر روک لیا اور کہا ’ابھی تو بارہ گوٹ کا مقابلہ بھی باقی ہے اور میں نے خاص طور پر تمہارے لیے رس گلے بھی منگوا رکھے ہیں صبح تمہیں ویسے بھی چلے ہی جانا ہے، اس لیے آج تم یہیں سو جانا۔ مجھے بانو نے بتایا تھا کہ تمہیں رس گلے بے حد پسند ہیں اس لیے خاص طور پر دیسی گھی میں بنے ہوئے رس گلے لایا ہوں تمہارے لیے تا کہ تم گاؤں جا کر بھی ان کا ذائقہ یاد رکھو۔‘

رس گلوں کی اتنی تعریف سن کر واقعی میرے منہ میں پانی بھر آیا۔ بارہ گوٹ کی دو تین بازیاں لگانے کے بعد شوکت صاحب نے بانو کو آواز دی کہ جلدی سے رس گلے لاؤ، وہ رس گلوں کی بھری ہوئی پلیٹ اٹھا لائی۔ اس نے پلیٹ اس محبت سے میرے آگے کی جیسے پلیٹ میں اس کا دل پڑا ہوا ہو۔

میں نے چار پانچ رس گلے ہی کھائے تھے کہ شوکت صاحب نے کہا زیادہ کھانا نقصان دہ ہیں۔ فریج میں رکھ دو باقی صبح ناشتے میں کھائیں گے، میں نے ہاتھ روک لیا مگر میری نظریں مسلسل رس گلوں پر مرکوز تھیں۔ تھوڑی دیر بعد بانو پلیٹ اٹھا کر اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ میں اور شوکت صاحب بیٹھک میں ہی سو گئے۔

رات گئے اچانک بانو کے پیٹ میں تکلیف ہوئی اور وہ درد سے کراہنے لگی۔ شوکت صاحب ہڑبڑا کر اٹھے۔ انہوں نے مجھے بتایا ’گھبراؤ نہ یہ اس کی پرانی بیماری ہے۔ میں ابھی اسے گولیاں کھلاتا ہوں‘۔ مگر گولیاں ختم ہو چکی تھیں وہ بڑبڑانے لگے ’کئی بار کہا ہے کچھ گولیاں اضافی رکھ لیا کرو۔‘

بانو درد سے تڑپ رہی تھی جب شوکت صاحب مجھے اس کے پاس چھوڑ کر دوا لینے چلے گئے۔ ان کے جاتے ہی بانو کا درد ٹھیک ہوگیا۔ وہ کچھ دیر میری طرف دیکھتی رہی اور آہستہ سے بولی:

’ گلو‘

’ہوں‘

’اب بھی موقع ہے‘

’ہیں ‘

’بڑا اچھا موقع ہے‘

 یہ سن کر میرے چہرے پر مسکراہٹ امڈ آئی اور میں جلدی سے بھاگ کر فریج سے رس گلوں کی پلیٹ اٹھا لایا۔ ایک رس گلہ میرے ہاتھ میں تھا اور دوسرا منہ میں۔ میں نے پلیٹ بانو کی طرف بڑھائی تو اس نے زور سے پلیٹ پر ہاتھ مارا، غصے سے مجھے ’نورا‘ کہا اور چادر تان کر سو گئی۔

ہم سب ہنسنے لگے لیکن گلو نے بات جاری رکھی’میں نے اس کی چپل پر گرے ہوئے رس گلے کو پونچھ کر منہ میں ڈالا اور اوپر جاکر سو گیا۔ یہ میری اور بانو کی آخری ملاقات تھی۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp