چین میں مصنوعی ذہانت تیزی سے انسانی وسائل کی جگہ لے رہی ہے، کاروباری کمپنیاں اپنی اشیا صارفین کو دلکش شکل میں دکھانے کے لیے مصنوعی ماڈلز کا سہارا لینے لگی ہیں۔
مصنوعی ذہانت نے ٹیکنالوجی کے میدان میں انقلاب پیدا کر دیا ہے، اس ٹیکنالوجی نے نہ صرف انسانوں کے لیے سہولیات فراہم کی ہیں بلکہ کئی میدانوں میں انسانوں کے روز گار کے مواقع پر بھی حملہ آور ہو گئی ہے کہ مختلف ممالک کی کمپنیاں اب انسانوں کے بجائے مصنوعی ذہانت کی خدمات لینا شروع ہو گئی ہیں۔
چین میں ایک نیا رجحان شروع ہو گیا ہے کہ مختلف کمپنیاں اب اپنی اشیا کی فروخت کے لیے اشتہارات میں انسانوں کے بجائے مصنوعی ذہانت کی حامل ماڈل استعمال کر رہی ہیں، سونے پہ سہاگہ یہ مصنوعی ماڈلز بالکل اصلی انسان ہی دکھائی دیتی ہیں۔
ان کمپنیوں کے اشتہارات میں دکھائی جانے والی جگہ اصلی ہوتی ہے اور اشیا بھی اصلی ہوتی ہیں لیکن ماڈل کوئی انسان نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت ہوتی ہے۔
اس ٹیکنالوجی نے کافی حد تک لوگوں کی نوکریوں کے لیے خطرہ پیدا کر دیا ہے، کیونکہ کمپنیوں کو لوگوں سے جو کام ملتا تھا، اب اے آئی سے ملنا شروع ہوگیا ہے۔
مصنوعی ذہانت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال بھی ہوسکتا ہے، یہ ایک ٹیکنالوجی ہے جس کا نقصان بھی اسی قدر ہے جتنا کہ اس کا فائدہ ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2030 تک صرف چین میں اس ٹیکنالوجی کی صنعت 42 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
اہم اور خطرناک بات یہ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی بہت تیزی سے پوری دنیا میں پھیل رہی ہے، آنے والے چند برسوں میں انسانوں کی جگہ روبوٹس کام کریں گے۔ ٹیکنالوجی کا یہ پہلو ہم سب (انسانوں) کے لیے نقصان دہ ہو گا۔