نگراں وفاقی وزیر تعلیم مدد علی سندھی کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ترقی کا واحد راستہ تعلیم ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں کی صورتحال بہت نازک ہے جسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔
وی نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں نگراں وزیر تعلیم مدد علی سندھی نے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالتِ زار بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ جب اسلام آباد کے علاقے ایف 6 میں ایک گرلز اسکول گئے تو وہاں کے واش رومز میں پانی تک دستیاب نہیں تھا، جس کے بعد انہوں نے سختی سے احکامات دیے ہیں کہ اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں ہنگامی بنیادوں پر سہولیات فراہم کی جائیں اور یہ 5 اکتوبر تک ہوجائے گا۔
’محکمہ تعلیم سے جڑے مسائل حل کرسکوں گا یا نہیں، مگر اچھی بنیاد ضرور ڈال کر جاؤں گا‘
مدد علی سندھی نے کہا کہ اگر اسلام آباد کے اسکولوں میں سہولیات کی یہ صورتحال ہے تو باقی علاقوں میں کیا ہوگا یہ سمجھنا مشکل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں کالجز سمیت 432 تعلیمی ادارے ہیں اور انہوں نے سہولیات کی فراہمی کے لیے سختی سے ہدایات جاری کی ہیں۔
رات کو ڈیڑھ بجے بتایا گیا کہ آپ وفاقی وزیر بن رہے ہیں
نگراں وزیر تعلیم نے کہا کہ جس روز وزارت کا حلف اٹھایا اس رات ڈیڑھ بجے مجھے بتایا کہ ’آپ کو وفاقی وزیر بنایا جا رہا ہے‘۔
بحیثیت وزیر تعلیم سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟
مدد علی سندھی نے کہا خود کو درپیش بڑے چیلنج سے متعلق سوال پر کہا کہ معیارِ تعلیم درست کرنا اور اسکولوں کی حالتِ بہتر کرنا ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر نہ کی گئی تو غریب کا بچہ کہاں تعلیم حاصل کرے گا؟
وزیر تعلیم سے پوچھا گیا کہ ہمارے بنیادی نصاب میں جمہوریت اور آئین پاکستان کی حرمت کے حوالے سے کوئی سبق کیوں شامل نہیں؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ابھی وہ چیزوں کو دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ابھی بہت سی چیزیں ہیں جن پر کام کرنا ہے اور انہوں نے وائس چانسلرز کو بھی کہا ہے کہ تھوک کے حساب سے ڈگریاں دینے کا آخر فائدہ کیا ہے۔
کیا عام انتخابات وقت پر ہوجائیں گے؟
عام انتخابات وقت پر ہونے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ الیکشن ضرور ہوں گے، اس ملک میں کب انتخابات نہیں ہوئے؟ ’1970 جیسے طوفان کے بعد بھی انتخابات ہوئے، پھر ضیاالحق کا جہاز تباہ ہونے کے بعد کیسے حالات تھے مگر انتخابات ہوئے اور اب بھی ہوں گے لیکن کون کہاں پر ہوگا اس کا فیصلہ وقت کرے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ عوام کو اپنے نمائندوں سے بنیادی سہولیات کی فراہمی سے متعلق ضرور سوال کرنا چاہیے، صاف پانی کی فراہمی، تعلیم اور صحت کے مسائل حل ہوجائیں تو عوام کو اس سے بڑھ کر کچھ نہیں چاہیے۔
’زندگی میں جس راستے کا انتخاب کیا اس کی وجہ سے بہت مشکلات جھیلیں‘
زندگی کے نشیب و فراز کے حوالے سے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مدد علی سندھی نے کہا کہ زندگی میں جس راستے کا انتخاب کیا اس کی وجہ سے تکلیف دہ وقت بھی گزرا مگر کوئی پچھتاوا نہیں ہے کیونکہ ایک بار مجھے کسی نے کہا تھا کہ زندگی کا سفر آپ نے خود ہی تو چنا تھا اب پچھتاوا کیسا۔
مدد علی سندھی نے کہا کہ ہماری جوانی کا وقت کچھ اور تھا، اس وقت ہم سوچتے تھے کہ لوگوں کی زندگیاں تبدیل کریں گے، مگر آج نوجوان چی گویرا کی تصاویر والی شرٹس تو پہنتے ہیں مگر ان کو معلوم نہیں کہ وہ کون تھا۔
انہوں نے کہا کہ جب تک جسم میں جان ہے خواب تو دیکھتے ہی رہیں گے۔ ’میں نے ایک بار لکھا تھا کہ چی گویرا کے مرنے کے بعد بھی اس کی آنکھوں میں مجھے خواب نظر آئے، حالانکہ وہ مرچکا تھا اور امریکی سپاہی اس کی لاش کے پاس کھڑے تھے‘۔
شیخ مجیب الرحمان سے کیسے تعلق بنا؟
نگراں وزیر تعلیم نےشیخ مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں کا شمار ہی بہت ذہین شخصیات میں ہوتا تھا۔ 2 سال بعد بھی اگر آپ ان کو ملیں گے تو نام سے پکاریں گے۔
انہوں نے کہا کہ نواب شاہ سے تعلق رکھنے والے قاضی فیض محمد نے شیخ مجیب الرحمان سے میری ملاقات کرائی تھی جو 30 جون 1970 کو نوابشاہ میں ہوئی۔
شیخ مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو میں سے درست راستے پر کون تھا؟
اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔ ’ویسے میرے خیال سے دونوں سے سیاسی غلطیاں ہوئی ہیں‘۔
ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ آپ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پابند سلاسل رہے مگر پھر بھی ان کا نام بڑے احترام سے لیتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے تو انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو اس وقت اپنی سیاست کر رہے تھے اور ہم اپنی سیاست اور دونوں ہی ٹھیک تھے۔ ’ہم نے جو راستہ اختیار کیا وہ بہت خطرناک تھا، اب تو کوئی شکوہ شکایت نہیں ہے کیونکہ زمانہ گزر گیا ہے‘۔
کیا روس کی تقسیم کے بعد پاکستان سے بائیں بازو کی سیاست ختم ہوگئی؟
روس کی تقسیم کے بعد پاکستان سے بائیں بازو کی سیاست ختم ہونے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں مدد علی سندھی نے کہا کہ جب تک امیری اور غریبی ہے یہ سوچ باقی رہے گی، ہمارے ملک میں آج بھی دو طبقات ہیں، بیوروکریٹس کے بچے اب تو پاکستان میں تعلیم بھی حاصل نہیں کر رہے جبکہ ماضی میں ایسا نہیں تھا۔
’گھر کے ماحول کی وجہ سے ادب پڑھنے کا شوق پیدا ہوا‘
نگراں وزیر تعلیم نے کہا کہ ایک وقت تھا ہمارے گھر میں ایک ادبی ماحول ہوتا تھا، مختلف رسالے اور اخبارات ہمارے گھر میں آتے تھے، تب ہم چھوٹے ہوتے تھے اور سمجھ نہیں آتی تھی مگر اسی ماحول کی وجہ سے انہیں ادب پڑھنے کا شوق پیدا ہوا اور پھر انہوں نے کہانیاں لکھیں اور شعبہ صحافت سے بھی وابستہ رہے۔
انہوں نے کہا کہ جب سے نجی تعلیمی اداروں کا رجحان شروع ہوا ہے تب سے سرکاری اسکولوں کا معیار گرنا شروع ہوگیا ہے۔ اب ہمارے بچوں کو نا اردو درست پڑھنا آتی ہے اور نا ہی انگریزی صحیح پڑھ سکتے ہیں۔
مدد علی سندھی نے کہا کہ شاہ لطیف کی شاعری سندھ پر ایک مہر کی طرح ہے، وہ اگر نا ہوتے تو ہم بڑی مشکل میں پھنس جاتے۔
’ہمیں اپنی علاقائی زبانوں کے حوالے سے احساس کمتری کیوں ہے؟‘
علاقائی زبانوں کے حوالے سے احساس کمتری کا شکار ہونے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر تعلیم نے کہا کہ یہ صرف ہمارے ہاں ہے، اگر آپ چین چلے جائیں تو وہاں کوئی بھی عہدیدار انگریزی میں تقریر نہیں کرتا، ساتھ مترجم موجود ہوتا ہے، جبکہ پاکستان میں لوگ غلط انگریزی بول رہے ہوتے ہیں مگر اپنی قومی زبان کو ترجیح نہیں دی جاتی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں زبان کے حوالے سے احساس کمتری اس لیے ہے کہ انگریز اس حوالے سے بہت کام کرکے گیا ہے۔
مدد علی سندھی نے کہا کہ انگریز نے ہمارے ہیروز کے حوالے سے بہت متنازعہ باتیں کی ہیں، پنجاب کے بہت سے لوگوں نے 1857 میں لڑائی لڑی مگر ان کو ایسے پیش کیا گیا جیسے وہ کوئی ڈاکو تھے، سندھ اور بلوچستان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے 1978 میں یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ ہم متوسط طبقے کے لوگ بڑے لوگوں کے ساتھ نہیں چل سکتے۔
مدد علی سندھی نے کہا کہ ’میں ’ہفتِ قدم‘ کے نام سے ایک میگزین نکالتا تھا جسے 1972 اور پھر 1975 میں بند کیا گیا‘۔
1990 میں شعبہ صحافت میں قدم رکھا
مدد علی سندھی نے کہا کہ انہوں نے 1990 میں باقاعدہ شعبہ صحافت میں قدم رکھا اور روزنامہ سندھ نیوز کو جوائن کیا۔
مدد علی سندھی نے کہا کہ اس وقت پابندیاں بہت زیادہ تھی اور اخبار شائع ہونے سے پہلے چیک ہوتا تھا اور انہوں نے اس صورتحال میں کچھ نیا کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد وہ ہلالِ پاکستان کے چیف ایڈیٹر رہے اور وہاں پر انہیں کہا گیا کہ 150 ملازمین کو نوکریوں کو نکالا جائے مگر انہوں نے انکار کردیا جس کی وجہ سے میرا کانٹریکٹ ختم کردیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اب آہستہ آہستہ ورکنگ جرنلسٹ کا عہدہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔
’شعبہ صحافت کے بعد کلچرل ڈیپارٹمنٹ میں آگیا‘
مدد علی سندھی نے کہا کہ شعبہ صحافت کے بعد وہ کلچرل ڈیپارٹمنٹ میں چلے گئے اور انہوں نے سوچا کہ سندھ کی تاریخ پر کتابیں شائع کی جانی چاہیئیں۔
نگران وزیر تعلیم نے کہا کہ ہم نے سندھی ثقافت کے حوالے سے جو بھی کام کیا اس کا کریڈٹ سردار شاہ کو جاتا ہے۔
مدد علی سندھی نے کہا کہ ’مجھے فوٹو گرافی کا بہت شوق تھا جس کے باعث ہم نے 1870 سے 1970 کی 100 سالہ تصاویر کا ایک البم شائع کیا‘۔
مدد علی سندھی نے کہا کہ اس دور میں انہوں نے شیخ ایاز کی کتابیں شائع کرنے کے حوالے سے کام کیا اور ایک وزیراعلیٰ کے سامنے تقریر کی جنہوں نے اس کی منظوری دے دی اور پھر شیخ ایاز کی 28 سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔