پہلی ملاقات، جب زیبا نے اسسٹنٹ محمد علی سے تنگ آ کر اسکرپٹ پھینک دیا

جمعرات 28 ستمبر 2023
author image

سفیان خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

زیبا کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا تھا۔ اسکرپٹ ان کے ہاتھ میں تھا لیکن وہ اس نوجوان اسٹنٹ کے بار بار مداخلت کرنے پر چڑ سی گئی تھیں۔ وہ ریہرسل کراتے ہوئے زیبا بیگم کو تواتر کے ساتھ ٹوک رہا تھا۔ زیبا بیگم جب بھی کوئی مکالمہ بولتیں تو نوجوان فوراً کہتا ، ”نہیں نہیں اس کو اس طرح ادا کریں۔“ نوجوان کا جب ہدایتکاراور شاعر فضل احمد کریم فضلی نے زیبا سے تعارف کرایا تھا تو بڑے فخریہ انداز میں کہا کہ یہ محمد علی ہیں جومیرے اسٹنٹ ہی نہیں بلکہ اس فلم میں ایک اہم کردار بھی ادا کررہے ہیں اور ان کی بھی آپ کی طرح یہ پہلی فلم ہے۔ شاہین بانو سے زیبا کا فلمی نام فضلی صاحب نے ہی دیا تھا اور اسی لیے زیبا بیگم ان کا احترام کررہی تھیں جو اپنی فلم ’چراغ جلتا رہا‘ کے ذریعے انہیں فلموں میں متعارف کرانے جارہے تھے۔

زیبا نے ایک مرتبہ پھر کوئی مکالمہ ادا کیا تو نوجوان محمد علی نے مداخلت کی ۔ اس مرتبہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوہی گیا۔ زیبا غصے سے کرسی سے اٹھیں اور فضلی صاحب کے کمرے تک پہنچیں اور ان کی میز پر جا کر اسکرپٹ پھینکتے ہوئے کہاکہ وہ اس فلم میں کام نہیں کریں گی ۔ پہلے اپنے اسٹنٹ کو بات کرنے کا ڈھنگ سکھائیں۔فضلی صاحب کے لیے یہ صورتحال غیرمتوقع تھی ۔ انہوں نے محمد علی کو بلایا جنہوں وضاحت کی کہ وہ تو مکالمے کی ادائیگی میں جذبات اور احساسات کو استعمال کرنے کا کہہ رہے تھے۔ اب زیبا بیگم اسے سمجھ نہیں پارہیں تو ان کا کیا قصور؟ اور آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ نئی لڑکی کو اداکاری کے گُر سکھا دیں۔

فضل احمدکریم فضلی زمانہ شناس تھے۔ انہوں نے محمد علی سے کہا کہ بے شک انہوں نے ریہرسل کرانے کا کہا تھا لیکن تھوڑا سا خیال کریں کیونکہ زیبا کی یہ پہلی فلم ہے لہذا صبر وتحمل کے ساتھ ریہرسل کامرحلہ طے کریں۔ فضلی صاحب کے مشورے پر محمد علی نے اب اپنے استاد والے رویے کو ترک کرکے دوستانہ ماحول میں زیبا بیگم کی معاونت کی۔انہیں یہ بھی بتایا کہ کب او ر کیسے چہرے اور آواز کے تاثرات کا موثر انداز میں استعمال کرنا ہے۔

ابتدا میں محمد علی سے چڑ جانے والی زیبا بیگم بعد میں ان کی ایک ایک بات اور اداکاری کے گُر کو نہ صرف سمجھ رہی تھیں بلکہ اپنے پلو سے بھی باندھتی چلی گئیں ۔زیبا بیگم کو بعد میں احساس ہوا کہ جن غلطیوں کی محمد علی نشاندہی کررہے تھے وہ واقعی ان کی مرتکب ہو رہی تھیں۔محمد علی کی پروقار اور با رعب شخصیت اور پھر ان کا انداز ِگفتگو زبیا بیگم کو پسند آیا۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ محمد علی اور زیبا کی پہلی ملاقات ناخوشگوار تو رہی لیکن پھر فلم کی عکس بندی کے دوران دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوگئے۔

ہدایتکار فضلی کی فلم ’چراغ جلتا رہا‘ اس اعتبار سے بھی منفرد رہی کہ کراچی کے نشاط سنیما میں اس کی افتتاحی تقریب میں مادر ِملت فاطمہ جناح نے بطور خاص شرکت کی۔ گو کہ زیبا اور محمد علی اس فلم میں ہیرو اور ہیروئن نہیں تھے لیکن اس کے باوجود ان کی اداکاری کو سراہا گیا۔مگر یہ کیسا حسین اتفاق ہے کہ اس جوڑی کو پھر 2سال بعد فلم ’ہیڈکانسٹیبل‘ میں ایک ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ فلم کامیاب نہ ہوئی لیکن محمد علی اورزیبا بیگم کی جوڑی دیگر ہدایتکاروں کی نگاہ میں آگئی۔ اس عرصے میں زیبا اور محمد علی الگ الگ فلموں میں کام کرکہ اپنے لیے منفرد اور اچھوتا مقام حاصل کرچکے تھے۔ محمد علی کو کامیاب ہیرو جبکہ زیبا کو بہترین اداکارہ تسلیم کیا جاچکا تھا۔

محمد علی اور زیبا کی جوڑی ’رواج‘ اور ’ شبنم‘ میں کام کرکے ایک دوسرے کے زیادہ قریب آچکی تھی۔ اس دوران زیبا نے سدھیر سے شادی کی لیکن یہ طلاق پرختم ہوئی۔ بہرحال اب زیبا اور محمد علی کی شامیں ایک ساتھ گزرتیں۔عشق کابخاردونوں کو تپار ہا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب زیبا کو اپنی شریک ِسفر بنانے کے لیے ہر ہیرو بے تاب رہتا لیکن زیبا کا دل محمد علی کے لیے دھڑک رہا تھا۔ گو کہ زیبا بیگم کی جوڑی وحید مراد کے ساتھ بھی ہٹ جاتی لیکن پرستار انہیں محمد علی کے ساتھ زیادہ دیکھنا چاہتے۔

ہدایتکار اقبال یوسف 1966میں جب ’تم ملے پیار ملا‘ کی عکس بندی کرارہے تھے تو انہیں کیا معلوم تھا کہ اس فلم کے ذریعے محمد علی اور زیبا کو حقیقی زندگی میں ایک دوسرے کاپیار ملنے والا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شادی کی پیش کش محمد علی نے ہی کی تھی جسے زیبا بیگم رد نہ کرسکیں۔29ستمبر 1966کو یہ فلمی جوڑا حقیقی زندگی میں بھی ایک دوسرے کا ہوگیا۔ محمد علی کا کہنا تھا کہ دونوں نے اچانک ہی فیصلہ کیا تھا کہ انہیں اب شادی کرلینی چاہیے اور اس فوری ارادے کی وجہ سے محمد علی کے پاس صرف ساڑھے 17ہزا رروپے تھے جن کے ساتھ انہوں نے زندگی کے اس نئے سفر کی شروعات کی۔

محمد علی کو دلہا بنانے کاسب سے زیادہ نقصان ان فلم سازوں کوہوا جنہیں آنے والے برسوں میں یہ خبر ملی کہ زیبا بیگم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب کسی دوسرے اداکار کی ہیروئن نہیں بنیں گی۔ اس دوران انہوں نے اپنی دیگر ہیروز کے ساتھ نامکمل فلموں کو پورا کیا۔ زیبا نے محمد علی کے ساتھ جن نمایاں فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے ان میں آگ،محل، تاج محل، دل دیا در دلیا، مجھے جینے دو، پاکیزہ، جیسے جانتے نہیں، زندگی کتنی حسین، بہورانی، بہاریں پھر بھی آئیں گ اور زندگی کتنی حسین ہے شامل ہیں۔

ستر کی دہائی میں علی زیب کی شاہکار فلموں میں انجان، نورین، محبت رنگ لائے گی، نجمہ، ایک پھول ایک پتھر، تیری صورت میری آنکھیں، انصاف اور قانون، اور سلام ِمحبت ہیں۔1975میں زیبا اور محمد علی کی 9فلمیں سنیما گھروں کی زینت بنیں، ان میں بن بادل برسات، آرزو، محبت زندگی ہے، جب جب پھول کھلے اور نوکر گولڈ ن جوبلی سپرہٹ فلموں کا اعزاز حاصل کرگئیں۔ 1977کے آنے تک زیبا اور محمد علی کی کئی فلمیں جاری ہوئیں اور پھر دھیرے دھیرے زیبا فلمی دنیا سے دور ہوتی چلی گئیں۔

زیبا اور محمد علی نے مجموعی طور پر 64 فلموں میں کام کیا۔ اس جوڑی نے 80کی دہائی میں بھارتی فلم ’کلرک‘ میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے جس کے متعلق ان کا دعویٰ تھا کہ کردار کو قطع و برید کانشانہ جان بوجھ کر بنایا گیا۔

محمد علی بھی جب بڑھاپے کی دہلیزپر پہنچے تو انہوں نے فلمی مصروفیات کم سے کم کردیں۔ یہ جوڑا اب فلاحی کاموں میں زیادہ دلچسپی دکھاتا۔ علی زیب فاؤنڈیشن کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ 19مارچ 2006کو محمد علی کے اس دنیا سے کوچ کرجانے کے بعد اب زیبا بیگم ان کی یادوں کے سہارے جی رہی ہیں۔ درحقیقت یہ ایک ایساجوڑا تھا جس کے درمیان کبھی کوئی اختلاف کی خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت نہ بنیں۔ ان دونوں کے درمیان اگر زندگی بھر کوئی اختلاف ہوا تھا تو وہ پہلی فلم’چراغ جلتا رہا‘ کے دوران ہی ہوا ۔ یہ اختلاف بھی عجیب نوعیت کا تھا کہ بجائے دوریاں پیدا کرنے کے دونوں کے مابین نہ مٹنے والے تعلق کی بنیاد ڈال گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp