اس رات ہم چلم میں تھے۔ ہمارے قیام کے واسطے ہمایوں صاحب نے محکمہ جنگلات کے گیسٹ ہاؤس میں انتظام کر رکھا تھا۔ یہاں سے آگے دیو سائی نیشنل پارک تھا اور اس کے بیچوں بیچ ایک رستہ دیو سائی سے ہوتا ہوا سکردو جاتا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد، میں اور اکمل گیسٹ ہاؤس کے باہرٹہلنے کے لیے آگئے ۔ یہ وہ لمحہ تھا کہ جو اس سیاحت کا سب سے یادگار وقت قرار پانے والا تھا۔ آدھی رات کا عمل تھا۔ سامنے ایک ہوٹل کے صحن میں سیاحوں کی چھوٹی بڑی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ آسمان بادلوں سے ڈھکا تھا، نویں کا چاند اُن بادلوں کے پیچھے چھپ کر بھی، اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔
ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ کبھی کبھار، دور کہیں سے خرسِ برفانی (برفانی ریچھ) کی آواز آجاتی تو رات کی سرمئی چادر سرسرا اُٹھتی۔ جنگلی پھولوں کی خوشبو سونگھتے ہوئے میں اور اکمل ٹہلتے رہے۔ گویا ، زوالِ عمر کے خلاف تیرتے رہے، اور پچھلی دو صدیوں پر پھیلے تعلق کی تلخ و شیریں یادوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
ان صدیوں میں بحثیں بھی ہوئیں اور مذاکرات بھی۔ لڑائیاں بھی اورجھگڑے بھی، جھڑپیں بھی اور جنگیں بھی، طرفداریاں بھی، اورمخالفتیں بھی، سنگ باریاں بھی اور دل داریاں بھی۔ لیکن یہ سب وہ اینٹیں، گارا، اور پلستر، اور رنگ و روغن ہے،جس نے تعلق کی عمارت کو، خوش نما بنا دیا ہے۔ اکمل مجھ سے پہلے کا ریڈیو میں تھا۔ ریڈیو کو، اس کے مزاج کو، اس کی فضا کو، اس کی آب و ہوا کو، اس کی تہذیب و ثقافت کو، اس کے نشست و برخاست کو مجھے سے پہلے کا جانتا تھا، اسی لیے، مجھ سے بہتر جانتا تھا۔ تو اُس رات، ہم دونوں میں یہی چلتا رہا:
’تمہیں یاد ہے؟‘
’ہاں ہاں، یاد آیا۔‘
’نہیں نہیں، ایسا نہیں تھا، ویسا تھا۔‘
’تم بھول رہے ہو، ویسا نہیں، ایسا تھا۔‘
اس رات بہت سے وہ لوگ بھی یاد آئے، یاد کیے گئے، جو آج ہمارے ساتھ نہیں تھے، یا ہم میں نہیں تھے، یا اب، کہیں بھی نہیں تھے۔ اور وہ بھی کہ جو ہمارے ساتھ ہو سکتے تھے، لیکن نہیں تھے۔ اور وہ بھی کہ جن کا ذکر نہ اکمل نے کیا، نہ میں نے، کہ ہم دونوں کے ذہنوں کے نہاں خانوں میں تو وہ ہوں گے، ہیں۔۔۔ لیکن ہم دونوں ان کا ذکر کرنے سے نظریں چراتے رہے، جان بوجھ کے ان کے عکس کو پیچھے دھکیلتے رہے ۔۔ ان کے ذکر سے پہلو تہی کرتے رہے ۔۔۔ پتا نہیں کیا بولے جا رہا ہوں جنوں میں۔۔۔
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ ۔۔۔
مگر ۔۔۔
سمجھ جائیں خود ہی وہ خدا کرے سبھی ۔۔۔ ( اور خدا کرے کہ یہ تحریف قابلِ معافی ہو)
حالانکہ جنوں ایسا ہے بھی کوئی نہیں۔۔۔ یا شائدرہا نہیں، یا شائد ۔۔۔ لیکن اُس رات ۔۔۔ بقول نون میم راشد۔۔
تمام رفتہ و گذشتہ صورتوں، تمام حادثوں۔۔۔
کے سست قافلے۔۔۔
مرے دروں میں جاگ اٹھے۔۔۔
مرے دروں میں، اک جہانِ بازیافتہ کی، ریل پیل جاگ اٹھی۔۔۔
بہشت جیسے جاگ اٹھے خدا کے لا شعور میں ۔۔۔
انگریزی کا ایک لفظ ہے، نوس ٹَیل جَ۔۔۔(جان بوجھ کر ایسے لکھا ہے، کہ تلفظ یہی ہے)۔۔۔ اس لفظ کا ، مُقتدرہ قومی زبان کی شائع کردہ، انگریزی اردو لغت میں، جو متبادل دیا گیا ہے، وہ ہے، ماضی پرستی۔ تین سو ساٹھ ڈگری کا جو رُمانوی ہالہ، نوسٹیلجَ کے گرد بنتاہے،وہ اس کے اردو متبادل کے گرد نہیں بنتا۔ ماہر اور قابل مترجم یاسر جواد اس باب میں میری کوئی داد رسی کریں تو کریں۔
تو یہ وہ رات تھی کہ جس میں نوسٹیلجَ کے مارے ہم دونوں نے ماضی کو خوب یاد کیا، یادِ ماضی کو عذاب کہنے والے سے شدید اختلاف کیا۔ اور اب جب کہ وہ رات، بذاتِ خود ایک خوب صورت، یاد آگیں یاد بن چکی ہے، تو تحریر کے اس موڑ پر، اُس رات کا ذکر کرتے، نون میم راشد ایک بار پھر لا شعور میں جاگ اٹھا۔ وہی، حسن کوزہ گر۔۔۔
شبِ گُنہ کی لذتوں کا اتنا ذکر کر چکا ۔۔۔ کہ وہ، خود گناہ بن گئیں ۔۔۔
یادوں کے تارے گنتے گنتے، رات جانے کتنی بھیگ چکی تھی۔ رات کا جانے وہ کون سا پہر تھا، جب ہم تھکے ہارے، اپنے اپنے، اور ایک دوسرے کے بوجھ کی گٹھڑیاں ، اپنے اپنے کندھوں پر اٹھائے، اس مزیدار سی سرد گوں تِیرگی میں، اپنے اپنے بستروں میں آ گھسے تھے ۔یہ جانے بغیر کہ اگلی صبح کا سورج، ہمارے لئے جانے کون سا چاند چڑھانے والا تھا ۔
اگلی صبح ناشتہ کرکے ہم چلم چوکی جا پہنچے۔ اپنا نام پتا لکھوایا، اور آگے کا راستہ لیا۔ منی مرگ اور چلم کے بیچ جو قابلِ ذکر جگہ ہے۔ وہ ہر جگہ ہے، ہر موڑ ہے، ہر اترائی ہے، اور ہر چڑھائی ہے۔
سڑک ہے، سیاہ تارکول کے ریشم سی،
اور دریا ہے زمرد رنگے پانی کا،
کہ نام جس کا دریائے استور ہے،
اور تا حدِ نگاہ، حد سے بڑھے ہوئےہرے میدان ہیں۔۔۔
کہ جن میں توانا گھوڑے، یاک، بھیڑ، بکریاں قدرتی دستر خوان پر چُنی گھاس سے خوشہ چینی کرتے نظر آتے ہیں۔
دُور،جہاں سپید و سرمئی بادلوں سے سنورا، کھلتے نیلے رنگ کا آسمان، ہری شال اوڑھے پہاڑوں سے مِلتا دِکھتا ہے، وہاں چنار ، دیودار اور چیڑھ کے درخت قطار اندر قطار کھڑے ہیں۔ ان درختوں سے بھی اوپر، کُھلی اور کِھلی فضاؤں میں اُڑتے پنچھی محوِرقص ہیں۔ گھومتی بل کھاتی سیاہ سڑک ، اوپر ، اونچائیوں کی طرف آپ کی راہ نمائی کرتی ہے۔ اور آپ بُرزل کی چوٹی پر جا پہنچتے ہیں جہاں پاک فوج کے جوان، ٹھنڈی ہوائیں، اور کوسی محبت، آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ استور میں جنگلی و فضائی حیات کی بہتات ہے ۔ اگر کسی ویرانے میں نکل جائیں تو شاید آپ کی ملاقات ہوائی مخلوق سے بھی ہو جائے کہ دیو سائی کا مطلب ہی یہی ہے، دیوؤں، جنوں کے رہنے کی جگہ۔ بہرحال، یہاں برفانی چیتے بھی ہیں، مارخور بھی، لومڑیاں، بھیڑئیے اور ہرن بھی۔ اس کے علاوہ جھیلوں کی کثرت کے باعث چکور، برفانی مرغ، اور ہنس بھی فطرت کے توازن میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ اور توازن ہی حُسن ہے، جمال ہے۔
یہ پر شکوہ ہمالیہ ہے۔۔
اور آپ لگ بھگ چودہ ہزار فُٹ کی بلندی پر ہیں۔۔۔
اور آپ تاریخِ انسانی کی ایک قدیم ترین گزرگاہ پر ہیں۔۔۔
اور یہ تاریخی گزرگاہ، سری نگر کو گلگت سے جوڑتی ہے۔۔۔
اور یہ وہی گزر گاہ ہے، جہاں سے گئے وقتوں میں لوگ تجارت، علاج و معالجے کے لئے، یا تعلیم حاصل کرنے کو،گھوڑوں پر، سری نگر اور گلگت کے سفر پر نکلتے تو ، گزرتے ۔منی مرگ میں رہائش پذیر محقق اور دانش ورخوشی محمد طارق صاحب کے مطابق، استور چترالی زبان میں گھوڑے کو کہتے ہیں۔ استور مطلب، گھوڑوں کی گزرگاہ۔ تاہم استور سے تعلق رکھنے والی معروف صحافی ثروت صبا کی تحقیق کے مطابق، استور کا پرانا نام آبی سارس تھا کہ سنسکرت میں جس کا مطلب اونچی جگہ ہے۔ البیرونی نے اسے اسویرہ کے نام سے لکھا، جبکہ کشمیری اس علاقے کو حصورہ کہا کرتے جوکہ بادی النظر میں، حصار سے نکلا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اور ان کے مطابق، استور کا تعلق پشتو کے دو الفاظ، آس اور تور سے ہے۔
اور یہ وہی برزل ٹاپ ہے، جہاں سے پھوٹتے ندی نالے اور آبشاریں دریائے نیلم تخلیق کرتے ہیں، جسے کشن گنگا بھی کہا جاتا ہے۔ اور یہ وہی برزل ٹاپ ہے، جہاں سے دریائے استور نکلتا ہے ۔ اور دیو سائی کی چوٹی سے کالا پانی کا پانی ،گوری کوٹ کے مقام سے آکر اس میں شامل ہوجاتا ہے۔ پھر یہ دریائے استور، تھیلچی کے قریب، دریائے سندھ میں آکر مل جاتا ہے۔ جس کے بعد یہ عظیم دریائے سندھ، سکردو ، خنجراب ٹاپ براستہ پسّو کونز، ہنزہ اور گلگت، اور چترال براستہ غذر و گلگت سے آنے والے پانیوں کو لیکر، نانگا پربت کے سامنے سے ہوتا، چلاس ، دیامر، اور کوہستان سے ہوتا، پنجاب سے گزرتا ، پاکستان کے دیگر دریاؤں کے ساتھ سانجھ ڈال کر، سندھ کے زیریں اور بالائی میدانوں کو سیراب کرتا، بالآخر، دیبل کے ساحلوں سے ٹکراتے بحیرۂ عرب کا حصہ بن جاتا ہے۔
آہ ، احمد ندیم قاسمی یاد آ گئے ۔۔
کون کہتا ہے کہ،موت آئی تو مر جاو ٔں گا
میں تو دریا ہوں ،سمندر میں اتر جاؤں گا
یہاں سے آگے، لگ بھگ ایک ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد، منی مرگ ہے۔
منی مرگ، کشمیر کا ہم سایہ ہے۔
منی مرگ، کرگل سے متصل ہے۔
منی مرگ کلاڈ مونے کی واٹر لِلیز ہے،بلکہ اس سے بڑھ کر ۔ وِنسنٹ وین ہاخ کی سٹاری نائٹ ہے ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ ٹامس کولے کی دی آکس بو ہے ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ جوشوآ شا کی سیون ہِلز ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ۔
منی مرگ اگر ایک خمار ہے، تو دُمیل ایک انگڑائی ہے ۔ یہ منی مرگ سے اگلا پڑاؤ ہے اور دونوں مل کر، فطری خوبصورتی کے معنی کو مکمل کرتے ہیں ۔
سند باد ادھر آیا ہی نہیں۔۔
لوئس کیرل نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ایک ونڈر لینڈ منی مرگ نام کا بھی ہے، کہ جو فینٹسی نہیں ، حقیقت ہے ۔ ایک جیتی جاگتی، باقاعدہ حقیقت ۔ نقرئی چشموں، نیلگوں جھیلوں ، سبزہ اوڑھے پہاڑوں، قہقہاتی قُمریوں، کثیر رنگے موروں، ابیَضی بطخوں، سرمئی کوئلوں، اور خوبصورت مرغابیوں سے مزین ایک زندہ و جاوید حقیقت۔
آہ ، جب ہم وہاں پہنچے تو ہرے پہاڑوں کے بیچ تیرتے بادلوں نے وادی گھیری ہوئی تھی۔ کِن من لگی ہوئی تھی۔ سردی بڑھی ہوئی تھی ۔ اور دیودار کے کٹے تنوں سے بنے گھروں کی چمنیوں سے دھویں کی لکیریں بادلوں میں کہیں جا کر گم ہو رہی تھیں۔ اور یہ وہ وقت تھا کہ جب مجھے اقبال یاد آگیا تھا۔ شائد یہ وہی جگہ تھی، جس کی آرزو اس نے کی تھی ۔۔
لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو
ہو ہاتھ کا سرہانا سبزے کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو
آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ
پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو
اور میں نے منی مرگ دیکھ لیا تھا ۔ ایک رات اور ایک دن کا قیام رہا اس جنتِ ارضی میں۔ اب سفر واپسی کا تھا اور شام نے بستی گھیر لی تھی۔ اب سفر کی ’’ ادھورگی ‘‘ کا احساس بڑھ گیا تھا مگر یہ بات دریا پار کی بستیوں کے باسیوں کو ،کون بتائے کہ کچھ سفر مکمل ہو کر بھی مکمل نہیں ہوتے ۔ ہم سڑک پر تھے ۔ جب منی مرگ سے کوچ کیاتو دو پہر نکل چکے تھے۔ تیسرے کا آغاز ہو چکا تھا۔
گرمیوں کے دن لمبے ہوتے ہیں اور راتیں چھوٹی۔ گویا دن ختم نہیں ہوتا اور رات شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن پہاڑوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ شام طویل ہوتی ہے اور رات طویل تر۔ ہمارا سفر جب شروع ہوا تو شام شروع ہو چکی تھی۔ منزل خاصی دور تھی۔ سڑک اس موڑ کی طرف جاتی تھی جہاں سے آگے گلگت تھا۔ واپسی پر بھی ،میں دریا کے اِس طرف تھا جدھر جگلوٹ، پڑی بنگلہ اور مناور تھے ۔ جبکہ جلال آباد، اوشکن داس ، اور دنیور دریا کے اُس پار تھے ۔
اب میں وہاں سے واپس آ چکا۔ مگر یہ وہم دل میں اکثر تیرتا ہے کہ ہو نہ ہو میرا بدن کہیں منی مرگ کے مرغ زاروںاور دُمیل کی جھیلوں میں ہی رہ گیا ۔ اگرچہ راہ میں کوئی حلب تھا ، نہ ہی اس کی کارواں سرا کا حوض۔