عدالتوں نے عمران خان کو انتخابات سے روکا تو یہ معاملہ نگراں حکومت کے اختیار سے باہر ہوگا، انوارالحق کاکڑ

جمعہ 29 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان کوتمام دستیاب قانونی چارہ جوئی کو بروئے کار لائے جانے کے بعد عدالتوں کی جانب سے قانونی طور پر انتخابات سے روکا جاتا ہے تو یہ معاملہ نگراں حکومت کے اختیار میں نہیں ہوگا۔

اپنے دورہ لندن کے دوران بی بی سی ہارڈ ٹاک کو انٹرویو دیتے ہوئے نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ پی ٹی آئی کے خلاف کوئی سختی نہیں برتی جائے گی تاہم فسادات، توڑ پھوڑ، آتش زنی اور لوگوں کو تشدد پر اکسانے میں ملوث افراد سے قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور صدر شہباز شریف کے بارے میں بھی ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی فرد کو انتخابات سے روکا گیا تو یہ ایگزیکٹو کے فیصلے کی وجہ سے نہیں ہوگا کیونکہ یہ صرف عدالتی فیصلوں کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔

نواز شریف کی ممکنہ گرفتاری کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ معلوم کرنا ہوگا کہ آیا ان کی حفاظتی ضمانت ہے یا انہیں کسی اور قانونی چارہ جوئی کی سہولت دستیاب ہے۔

’پی ٹی آئی سے کوئی سختی نہیں برتی جائے گی‘

دریں اثنا بی بی سی اردو کو دیے گئے ایک اور انٹرویو میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف کے معاملے میں قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنا چاہیے کیونکہ وہ عدالتی حکم پر بیرون ملک گئے تھے۔

انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ مجھے نواز شریف کی گرفتاری پر کسی مشتعل رویے کی توقع نہیں کیونکہ ن لیگ کی قیادت اشتعال انگیز سیاست کرنے کی بجائے انتخابات میں حصہ لینے کو ترجیح دے گی۔ انہوں نے انٹرویو لینے والے کو بتایا کہ پی ٹی آئی کو بطور سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روکا گیا لیکن اگر کسی فرد پر فسادات، توڑ پھوڑ، آتش زنی اور لوگوں کو تشدد پر اکسانے کا الزام لگایا جاتا ہے تو اس رویے کا مقابلہ کرنے کے لیے ملک کے قوانین موجود ہیں۔

نگراں وزیراعظم نے یقین دلایا کہ پی ٹی آئی کے خلاف قطعی طور پر کوئی سختی نہیں برتی جائے گی تاہم تشدد میں ملوث پائے جانے والوں کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹا جائے گا لیکن ایسے لوگوں کی تعداد 250 ملین کی آبادی میں محض 1500-2000 تک ہو سکتی ہے۔

فوج کے خلاف عمران خان کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسی فوج نے ان کی حکومت کے دوران پی ٹی آئی کے سربراہ کے ساتھ مل کر کام کیا اور وہ شہرت کےلیے ہائبرڈ انتظامات کا کریڈٹ لیا کرتے تھے۔

’افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد افغان فوج کا جدید اسلحہ بلیک مارکیٹ کیا گیا‘

ایک سوال کے جواب میں نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 90,000 سے زائد جانیں گنوائی ہیں کیونکہ نیٹو اور آئی ایس ایف سمیت تمام فریقین کے خطے سے نکل جانے کے بعد ملک کو خود ہی اس بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج اور نیم فوجی دستے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے شاندار کام کر رہے ہیں۔

نئے حملوں کے چیلنج کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ انخلا کے بعد امریکا اور برطانیہ کی طرف سے چھوڑے گئے اضافی سامان اور اسلحے کی وجہ سے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 300,000 افغان فوج جدید ترین آلات سے لیس تھی اور انخلا کے بعد وہ اسلحہ اور ساز و سامان بلیک مارکیٹ میں فروخت کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنی سرزمین پر مقابلہ کر رہا ہے لیکن افغانستان میں ان کی پناہ گاہیں بھی اس مسئلے کا جزو ہیں۔

اپنی حکومت کی معاشی ترجیحات کے بارے میں نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ انہوں نے کرنسی اور ذخیرہ اندوزی کی غیر قانونی تجارت کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اسٹیل مل، پی آئی اے اور پاور ڈسکوز جیسے سرکاری اداروں کی نجکاری کے لیے بھی اقدامات کرے گی۔

انوارالحق کاکڑ نے بتایا کہ 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کا مینڈیٹ ہے تاہم انہوں نے آئین کے آرٹیکل 254 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو کچھ بھی مقررہ مدت کے اندر نہیں کیا گیا وہ غیر آئینی یا غیر قانونی ہونے کے مترادف نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp