حقہ، جیل اور مذاکرات، یہ تھے نوابزادہ نصراللہ خان

اتوار 1 اکتوبر 2023
author image

ڈاکٹر فاروق عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’ تو بات یہ ہے جناب‘۔

عام طور پر وہ اس قسم کے جملے سے بات کا آغاز کرتے، اس کے بعد گویا دبستاں کھل جاتا، سیاست تو ان کے گھر کی لونڈی تھی، تاریخ، تہذیب، شعر و ادب، وہ کون سا موضوع تھا جس پر وہ بات نہ کرتے اور سننے والے ہمہ تن گوش نہ ہو جاتے۔ یہ ذکر ہے نوابزادہ نصراللہ خان کا۔ تاریخ جنہیں بابائے جمہوریت، بابائے اتحاد اور بابائے مذاکرات کے صفاتی ناموں سے بھی یاد کرتی ہے۔

انسانی معاملات میں مذاکرات کی نوبت تبھی آتی ہے جب کوئی ایسا تنازع کھڑا ہو جائے جس کا حل دکھائی نہ دے، یوں گویا یہ ایک مشکل فن ہے، سیاست میں تو یہ کہیں زیادہ مشکل ہے لیکن اپنی اس مہارت پر نوابزادہ صاحب کو اعتماد کے ساتھ ساتھ کسی قدر فخر بھی تھا۔

1977 میں پاکستان قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک کے بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے طویل، پیچیدہ اور مشکل مذاکرات کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، ان مذاکرات میں اپنی مہارت کا کبھی کبھار وہ خود بھی فخریہ کریڈٹ لے لیا کرتے تھے۔

محمد آصف بھلی کی کتاب ’جمہوریت سے ملاقات‘ میں شامل ممتاز اقبال ملک کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا

’ مشہور تھا کہ سیاست دان جب بھی ان سے (بھٹو صاحب سے) ہاتھ ملاتے ہیں، انہیں بعد میں اپنی انگلیاں گننا پڑتی ہیں‘۔

لیکن!

‘ پاکستان قومی اتحاد کی طرف سے 32 نکات دیے گئے تھے، ہم نے 31 نکات تسلیم کرا لیے تھے، یہ مذاکراتی ٹیم کی بہت بڑی کامیابی تھی’۔

وہ ایک نکتہ جو منظور نہ کرایا جاسکا، یہ تھا کہ بھٹو صاحب کے استعفے پر اصرار نہیں کیا جائے گا۔ نوابزادہ صاحب کے بقول سعودی عرب کی سفارش پر اتحاد کی قیادت متفقہ طور پر یہ نکتہ واپس لے چکی تھی۔ یوں گویا مذاکرات کامیاب ہو چکے تھے، اس کے باوجود مارشل لا لگا دیا گیا، اس کا ذمے دار نا وہ خود کو سمجھتے ہیں اور نا حکومت اور اس کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو بلکہ نسبتاً نرم الفاظ میں کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ جرنیلوں نے اپنی بصیرت کے مطابق خود کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں بصیرت کے الفاظ انہوں نے بطور طنز استعمال کیے، وہ کہتے ہیں:

‘ جب دھاندلی کی جارہی تھی یا اس کے بعد قوم احتجاج کر رہی تھی، اس وقت فوج بھٹو صاحب کے ساتھ تھی جس کا کوئی قانونی جواز نہ تھا لیکن جب مفاہمت ہو گئی تو یہ کہہ کر مارشل لا لگا دیا کہ مفاہمت ناممکن ہو چکی تھی اور ملک میں خانہ جنگی کا خطرہ تھا’۔

مذاکرات میں تاریخی مہارت اور سیاست میں غیر معمولی بصیرت کی شہرت رکھنے والے اس سیاست داں کا خاندان نسلی اعتبار سے تاجک تھا جس نے مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے زمانے میں خان گڑھ کے علاقے میں جاگیر خریدی اور یہیں کا ہو کر رہا۔

‘ واضح رہے کہ انہیں دیگر جاگیر داروں کی طرح یہ زمین انگریزوں سے نہیں ملی’۔

نوابزادہ صاحب سے تقریباً 40 برس پر محیط تعلقات رکھنے والے ممتاز صحافی اور کالم نگار ہارون رشید نے مجھے بتایا۔

نوابزادہ صاحب نے گزشتہ صدی کی دوسری دہائی یعنی 1916 میں یہیں آنکھ کھولی۔ زمیندار گھرانوں کی روایت کے مطابق گھر میں اتالیق سے ابتدائی تعلیم حاصل کی پھر اشرافیہ کے لیے مخصوص تعلیمی ادارے ایچی سن کالج میں بھی زیر تعلیم رہے۔

‘وہ اس ادارے سے کس ڈگری کے حصول کے بعد فارغ التحصیل ہوئے؟’۔

‘اس سوال کا جواب وہ کبھی نہیں دیتے تھے’۔

ہارون رشید نے بتایا کہ اوائل عمری میں ہی سیاست میں دلچسپی لینے لگے تھے۔ ابتدا میں انہوں نے کچھ مقامی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور کچھ اس زمانے کی قومی سرگرمیوں میں، اس کے بعد جلد ہی نیم مذہبی، نیم سیاسی جماعت مجلس احرار کا حصہ بن گئے۔ سیاسی اعتبار سے یہ جماعت انڈین نیشنل کانگریس کی ہم خیال اور اس عہد کی استعماری طاقت یعنی انگریزوں کے لیے سخت مخالفانہ جذبات رکھتی تھی۔

ہارون رشید نے ایک بار ان سے سوال کیا کہ مجلس احرار میں سب سے پہلے آپ کے والد گرامی شامل ہوئے تھے یا پھر آپ؟

نوابزادہ صاحب یہ سوال سن کر مسکرائے اور اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرائیکی میں کہا:

‘ جناب، ایہہ ہکا پاگل آہی’، (جناب، یہ ایک ہی پاگل تھا)۔

ان کا اشارہ اس جانب تھا کہ جاگیرداروں اور زمینداروں کے قبیلے میں یہ کام اِن جیسا سر پھرا ہی کر سکتا تھا اور اِن کے سوا کوئی اور ایسا نہیں کر سکتا تھا۔

یہ زمانہ تند و تیز سیاسی سرگرمی کا تھا جس کے نتیجے میں پڑھے لکھے اور سنجیدہ سیاسی کارکن گہرے غور و فکر کے عادی ہو جاتے تھے، لہٰذا اگر وہ اپنی سیاسی وابستگی میں کوئی تبدیلی کرتے تو اس پر کسی کو حیرت نہ ہوتی۔ کچھ ایسا ہی سبب رہا ہو گا کہ مجلس احرار کے راستے سیاست میں داخل ہونے والا یہ نوجوان لاہور میں 22 اور 23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اس تاریخی اجتماع میں موجود تھا جس میں وہ قرار داد منظور کی گئی جسے پاکستان کی بنیادی دستاویز قرار سمجھا جاتا ہے۔

خان گڑھ کا یہ نوجوان اس اجتماع میں کسی نمایاں حیثیت میں شریک ہوا یا نہیں، اس کے بارے میں تو معلومات دستیاب نہیں ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس وقت آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ اور بعد میں بانی پاکستان کی تقریر اور سیاسی کردار نے انہیں غیر معمولی طور پر متاثر کیا کیونکہ بعد میں وہ نا صرف مسلم لیگ میں شامل ہو گئے بلکہ اس کے بعد بانیِ پاکستان کا نام ہمیشہ پورے احترام اور سرکاری پروٹوکول کے ساتھ لیتے پایا گیا، وہ جب بھی ان کا نام لیتے پورے سرکاری القاب و آداب کے ساتھ لیتے یعنی، ‘ قائد اعظم محمد علی جناح’۔

‘ دیگر احراریوں کے برعکس اس معاملے میں وہ ذہنی اور سیاسی اعتبار سے پرانے سیاسی اعتقادات اور رویوں کی جکڑ بندیوں سے بہت اوپر اٹھ چکے تھے’۔

نوابزادہ صاحب سے بہت قربت رکھنے والے ممتاز صحافی اور کالم نگار ہارون رشید نے مجھے بتایا۔

‘ اپنے عہد کے تعصبات اور قیادت کے رویوں سے وہ چھٹکارا پا چکے تھے، لہٰذا ان کا شمار ان نمایاں ترین سیاست دانوں میں کیا جاسکتا ہے جنہوں نے پاکستان کو نہایت کھلے دل اور ایمان داری کے ساتھ تسلیم کیا’۔

ہارون رشید نے مزید کہا۔

پاکستان بنا تو وہ مسلم لیگ میں ہی تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد جب یہ جماعت محلاتی سازشوں کا حصہ بن گئی تو نوابزادہ صاحب بدمزہ ہو کر اس سے علیحدہ ہو گئے۔

پاکستانی صحافت میں مزاحمت کی روایت کو مضبوط کرنے والے ممتاز صحافی آغا شورش کاشمیری کو ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ:

‘ میاں افتخار الدین، سردار شوکت حیات اور سردار اسد اللہ جان کو مسلم لیگ اسمبلی پارٹی سے نکال دیا گیا، جرم اتنا تھا کہ انہوں نے پارٹی میٹنگ میں شہری آزادیوں کا مطالبہ کیا تھا’۔

قیام پاکستان کے بعد قومی سیاست کا یہی مرحلہ تھا جب ملک کی بانی جماعت مسلم لیگ کے بطن سے مزید سیاسی جماعتوں نے جنم لیا اور مسلم لیگ میں کمزوری پیدا ہوئی۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے بھی اسی زمانے میں مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کی اور حسین شہید سہروردی مرحوم سے آ ملے، جنہوں نے حکمراں جماعت سے بغاوت کرکے عوامی لیگ قائم کی تھی۔ نوابزادہ صاحب اسی جماعت میں شامل ہو گئے۔ آغا شورش کاشمیری نے سہروردی صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ اس جواں سال، ذہین اور با اثر سیاست دان کی صلاحیتیوں سے فائدہ اٹھائیں۔

‘ چنانچہ سہروردی صاحب نے پنجاب کی قیادت ان کے سپرد کر دی’۔

ہارون رشید نے اپنی یادوں کو کریدتے ہوئے بتایا کہ یہ ایوب خان کا مارشل لا تھا جس میں نوابزادہ نصراللہ خان کی سیاسی بصیرت اور قائدانہ صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں۔ 62 کے انتخابات ہو چکے تو قومی اسمبلی کے اسپیکر کے انتخاب کا معاملہ تنازع کی شکل اختیار کر گیا۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سابق آئین ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین گورنر جنرل غلام محمد کے غیر جمہوری اقدامات کے خلاف مزاحمت کر کے قومی سیاست میں کسی ہیرو کی طرح نمایاں ہو چکے تھے اور حزب اختلاف چاہتی تھی کہ اس بار بھی انہیں اسپیکر منتخب کیا جائے تاکہ غیر جمہوری قوتوں کو ایک پیغام دیا جاسکے۔ ایوب خان ان کے خلاف تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ انہیں اسپیکر بنایا جائے۔ چنانچہ انہوں نے حزب اختلاف کو دھمکی دی کہ اگر مولوی تمیز الدین کو اسپیکر منتخب کرنے پر اصرار کیا گیا تو وہ اسمبلی توڑ دیں گے۔ اس دھمکی پر حزب اختلاف شش و پنج میں پڑ گئی کہ اگر اسمبلی توڑ دی گئی تو ایوب خان کے مارشل لا کے دوران انتخابات اور اسمبلی کے وجود کی صورت میں جمہوریت کا یہ جو کسی قدر امکان پیدا ہوا ہے وہ بھی ضائع ہو جائے گا۔ اس مرحلے پر نوابزادہ صاحب بروئے کار آئے، انہوں نے کہا

‘ ایسا کبھی نہیں ہو گا، انتخابات ہو چکے ہیں اور وہ خود ایوب خان نے کرائے ہیں، اس لیے وہ کبھی اسمبلی نہیں توڑیں گے، لہٰذا حزب اختلاف کو کسی خوف کے بغیر اپنے پسندیدہ امیدوار کو منتخب کرا لینا چاہیے’۔

‘پھر ایسا ہی ہوا’۔

نوابزادہ صاحب سے قربت رکھنے والے سینیئر سیاست دان منظور حسین گیلانی نے مجھے بتایا:

‘ مولوی تمیز الدین کو اسپیکر بھی منتخب کیا گیا اور ایوب اسمبلی بھی نہ توڑ سکے’۔

پاکستانی سیاست کے اس مرحلے پر ایوب خان کو حزب اختلاف کے چند مزید مطالبات بھی تسلیم کرنا پڑے۔ ان میں ایک یہ تھا کہ صدر مملکت اگر کسی رکن اسمبلی کو وزیر بنائیں تو اسے ایوان کی نشست چھوڑنی پڑے گی، یہ شرط واپس لے لی گئی۔ 62 کے آئین کے تحت پاکستان کا سرکاری نام ’جمہوریہ پاکستان‘ تھا، حزب اختلاف کے مطالبے کے سامنے جھکتے ہوئے ایوب خان کو آئین میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے الفاظ شامل کرنا پڑے۔ اس کے علاوہ انہیں شہری آزادیوں کا بل بھی اسمبلی سے منظور کرانا پڑا۔

ان واقعات سے ان کی سیاسی بصیرت اور ذہانت کا اندازہ تو ہوتا ہی ہے، جرات مندی اور بہادری کا بھی اندازہ ہوتا ہے لیکن پاکستان کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد جب اسکندر مرزا ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے منصوبے بنا رہے تھے، اُن کے ساتھ نوابزادہ صاحب کا مکالمہ یاد گار حیثیت رکھتا ہے جس سے نا صرف یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہم عصر سیاست دانوں کے برعکس حالات کے دھارے کو دیکھ کر مستقبل کا اندازہ کر لیتے تھے۔ اسکندر مرزا کے ساتھ ان کا یہ مکالمہ ایک مرد آہن کے منہ پر انہیں غلط کہنے کی بھی بڑی نادر مثال ہے۔ آغا شورش کاشمیری کو انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اسکندر مرزا نے جس زمانے میں پاکستانی اقتدار کے ایوانوں کو میوزیکل چیئر بنا رکھا تھا، ان کی بعض دوستوں کے ہمراہ اُن سے ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر اسکندر مرزا نے بقول نوابزادہ صاحب سیاست دانوں پر خوب تبریٰ کیا، پھر کہا کہ اس صورت حال کا ایک ہی علاج ہے، اور وہ ہے مارشل لا۔

’نواب زادہ صاحب نے یہ بات سنی تو انہیں ٹوکتے ہوئے کہا مرزا صاحب! یہ کوئی علاج نہیں’۔

یہی علاج ہے، اسکندر مرزا نے اصرار کیا تو نوابزادہ صاحب نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ اسی محفل میں انہیں خبردار کیا۔

‘معاف کیجئے گا، مارشل لا سب سے پہلے، ایک ماہ کے اندر اندر آپ کو ہڑپ کر لے گا’۔

طاقت کے مراکز میں بھرپور اختیارات رکھنے والے اسکندر مرزا بروقت ملنے والے مشورے کی افادیت کو سمجھنے سے قاصر رہے لیکن بعد میں ان کے ساتھ وہی ہوا جس کی پیشین گوئی نوابزادہ نصراللہ خان نے کی تھی۔

ایوب خان کے فوجی اقتدار اور بعد میں ان کی جابرانہ سویلین حکومت کے خلاف جب تحریک چلائی گئی، اس وقت نوابزادہ صاحب ہی کی قیادت میں متحدہ اپوزیشن ( کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز) کا اتحاد وجود میں آیا۔

سیاسی اعتبار سے یہ زمانہ بڑا ہنگامہ خیز تھا، اسی زمانے میں ایوب خان نے گول میز کانفرنس منعقد کی، حزب اختلاف کو اس میں شرکت کی دعوت نوابزادہ نصراللہ خان کے ذریعے ہی دی گئی۔ ایوب خان نے انھیں لکھا کہ وہ کانفرنس میں شرکت کے لیے حزب اختلاف کے قائدین کا انتخاب خود کریں۔ یہی زمانہ تھا جب مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب الرحمٰن نے اپنے معروف 6 نکات پیش کر کے قومی سیاست میں ہیجان برپا کر دیا تھا۔

نوابزادہ صاحب چاہتے تھے کہ ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دینے والے ان نکات کا جواب مشرقی پاکستان سے ہی آنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے چند ہم خیال سیاست دانوں کے ساتھ مشرقی پاکستان کے دورے کا پروگرام بنایا لیکن انہیں مغربی پاکستان کے دیگر 6 سیاست دانوں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔ نوابزادہ صاحب نے حیرت سے یہ بات کہی ہے کہ وہ یہ معمہ کبھی نہ سمجھ سکے کہ اس وقت کی حکومت نے 6 نکات کے خلاف حزب اختلاف کی سرگرمیوں کو جو عین ملکی مفاد میں تھیں، رکاوٹ کیوں ڈالی؟ ان کی حیرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو نے جو ایوب حکومت سے علیحدگی کے بعد ان کے معتوب تھے اور حزب اختلاف کی حمایت چاہتے تھے، سی او پی کی ایوب حکومت کے خلاف تحریک میں شریک کیوں نہ ہوئے؟

نوابزادہ نصراللہ خان کے سیاسی کیریئر کا دوسرا ہنگامہ خیز دور 1977 کے انتخابات کے بعد حزب اختلاف کے متحدہ محاذ پاکستان قومی اتحاد کی احتجاجی مہم کے دوران دیکھنے میں آیا۔ اس دور میں ان کی دو حیثیتیں نمایاں ہوئیں، ایک زیرک مذاکرات کار کی حیثیت سے اور دوسرا ایک بے خوف عوامی رہنما کی حیثیت سے۔

پاکستان قومی اتحآد نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود انتخابات کرا دیے گئے۔ حزب اخلاف کی طرف سے نوابزادہ نصراللہ خان نے اعلان کیا تھا کہ صوبائی اسمبلیوں کے پہلے اجلاس کے روز قومی اتحاد کی طرف سے مظاہرے کیے جائیں گے۔ لاہور میں جس روز پنجاب اسمبلی کا پہلا اجلاس تھا، سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے۔ ملک کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے پرتشدد احتاج کی وجہ سے اس وقت تک کئی شہروں میں مارشل لا کا نفاذ ہو چکا تھا جبکہ کچھ شہروں میں کرفیو بھی لگایا جا چکا تھا، اس وجہ سے شہر میں خوف و ہراس کی فضا تھی، نوابزادہ صاحب اس روز گلے میں قرآن حکیم کا نسخہ ڈال کر لاہور کی سڑکوں پر نکل آئے اور پولیس کے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی بے پناہ شیلنگ کے باوجود مظاہرے کی قیادت کرتے رہے۔

1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تو اس میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس میں نوابزادہ نصراللہ خان نے قائدانہ کردار ادا کیا تھا لیکن یہ کریڈٹ بھی ان ہی کو جاتا ہے کہ جنرل ضیا کے مارشل لا کے نفاذ کے بعد جن سیاست دانوں نے سب سے پہلے مارشل لا کو چیلنج کیا اور اس کے خلاف سیاسی جماعتوں کے اتحاد جو بعد میں تحریک بحالیِ جمہوریت (ایم آر ڈی) کی صورت میں وجود میں آیا، اس کی بنیاد رکھنے والوں میں سب سے نمایاں نام نوابزادہ نصراللہ خان ہی کا تھا۔

کسی سیاسی اتحاد میں متضاد نظریات رکھنے والی جماعتوں کو کم سے کم نکات پر متفق کر کے ایک پلیٹ فارم پر لایا جا سکتا ہے، پاکستانی سیاست میں اس کا سب سے بڑا اظہار اسی پلیٹ فارم سے ہوا کیوں کہ اس اتحاد میں وہ جماعتیں بھی شامل تھیں جنہوں نے تھوڑا ہی عرصہ پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلائی تھی، اب وہی جماعتیں ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کے ساتھ جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے خلاف سرگرم عمل ہو چکی تھیں۔ ’ایم آرڈی‘ کی تحریک کے دوران جن چند سیاسی قائدین کو سب سے زیادہ عرصہ نظربندی کی صعوبت کا سامنا کرنا پڑا، ان میں نوابزادہ صاحب نمایاں ترین تھے۔

آصف بھلی نے نوابزادہ صاحب سے سوال کیا کہ آپ کی نظر بندی پر طنز کرتے ہوئے بعض اخبارات نے لکھا کہ رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ، اس پر نوابزادہ صاحب نے ایک واقعہ سنایا۔

کہتے ہیں کہ مجھے نظر بند کر کے بہاولپور جیل لایا گیا۔ جیل پہنچنے پر جیل سپرنٹنڈنٹ نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ آپ کو تو بھیج دیا گیا ہے لیکن ہمیں یہ ہدایت ابھی تک نہیں ملی کی آپ کو کس کلاس میں رکھا جائے۔ اس پر میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس 3 ہی کلاسیں ہیں، اے، بی اور سی لیکن آپ مجھے زیڈ میں بھی رکھتے تو میں گلا نہ کرتا۔

جنرل ضیاالحق نے مارشل لا کے نفاذ کے بعد کابینہ بنائی تو ابتدا میں ان کی جماعت کے چند ارکان کابینہ میں شامل تھے لیکن نوابزادہ صاحب کو جلد ہی جنرل ضیا کے عزائم کا اندازہ ہو گیا اور ان کی طرف سے انتخابات غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دینے کی وجہ سے انہوں نے اپنی حمایت واپس لے لی۔

مارشل لا کی حمایت سے اتنی جلد کنارہ کش ہو جانے والے نوابزادہ نصراللہ خان سے حکمرانوں کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں اور وہ زمانہ تھا جب انہیں جنرل ضیا کی طرف سے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کی پیش کس بھی کی گئی تھی۔

آصف بھلی کو اپنے انٹرویو میں انہوں نے انکشاف کیا کہ جنرل ضیا نے جس وقت یہ پیش کش کی اس وقت مفتی محمود، پیر پگارا اور پروفیسر غفور احمد بھی موجود تھے۔ اتنی بڑی پیش کش پر نواب نصراللہ خان کا رد عمل کیا تھا، انہوں نے آصف بھلی کو بتایا:

‘ میں نے معذرت کی اور کہا کہ اپنی سابقہ روایات اور اصولوں کی وجہ سے میں ایسی پیش کش قبول نہیں کر سکتا’۔

نوابزادہ نصراللہ خان کی سیاست کے دو مزید ادوار قومی تاریخ میں اہمیت رکھتے ہیں۔ جنرل ضیا کے بعد جب ملک میں جمہوریت بحال ہوئی تو اس زمانے میں بننے والی حکومتوں جن کی قیادت بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کرتے تھے، عام طور پر ان کی مخالفت کرتے رہے لیکن اسی زمانے میں یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کے دوسرے دور حکومت میں پارلیمانی کشمیر کمیٹی کی قیادت کا سرکاری منصب سنبھالا۔

‘ لیکن اس میں بھی انہوں نے یقینی بنایا کہ کمیٹی میں حزب اختلاف کی نمائندگی مؤثر اور بامعنی ہو’۔

ہارون رشید نے بی بی سی کو بتایا! وہ کہتے ہیں کہ یہ نوابزادہ نصراللہ خان کی قیادت میں بننے والی کشمیر کمیٹی ہی تھی جس کے زمانے میں مسئلہ کشمیر دنیا بھر میں بہت زیادہ نمایاں ہوا۔ سبب یہ ہے کہ ان کے سیاسی تجربے، بزرگی اور بصیرت کی وجہ سے دنیا بھر میں ان کی بات سنی جاتی تھی۔

اس عہد میں ان کی سیاست کا دوسرا اہم ترین دور وہ ہے جب انہوں نے متضاد سیاسی نظریات رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کے خلاف الائنس فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (اے آر ڈی) کے پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ اس پلیٹ فارم کی خوبی بھی یہی تھی کہ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے اتحاد میں شامل کئی ایسی جماعتیں شامل تھیں جو اس سے قبل نواز شریف کی حکومت کے خلاف تحریک چلا رہی تھیں۔

متضاد سیاسی عناصر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر لینا اور اس کے بعد انہیں مستقل اکٹھے رکھنا، نوابزادہ صاحب کی ایک ایسی خصوصیت تھی جس کا اب صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ وہ لوگوں کو کس طرح اکٹھا رکھتے تھے، اس کا ایک واقعہ ممتاز صحافی اور کالم نگار سعید آسی سناتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں

‘ نواز شریف کے زمانے میں حزب اختلاف کے اتحاد کا جب تاسیسی اجلاس ہو رہا تھا، اس موقع پر علامہ طاہرالقادری نے اصرار کیا کہ وہ اس کے پہلے کنوینئر بنیں گے۔ پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعت اور بے نظیر بھٹو جیسی بڑی رہنما کی موجودگی میں یہ مطالبہ ایسا تھا جو اتحاد کو اپنی ابتدا میں ہی بکھیر سکتا تھا لیکن اس موقع پر نوابزادہ صاحب کی لوگوں کو اکٹھا رکھنے کی صلاحیت بروئے کار آئی اور انہوں نے بے نظیر بھٹو کو آمادہ کر لیا کہ وہ طاہر القادری کی قیادت قبول کرلیں’۔

‘ یہی اتحاد تھا جسے بعد میں اے آر ڈی کا نام دیا گیا اور نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد اس نے جنرل مشرف کی فوجی حکومت کے خلاف جدوجہد کی‘۔

سیعد آسی نے بتایا کہ نوابزادہ نصراللہ خان کے ساتھ طویل عرصے تک سیاسی جدو جہد کرنے والے سید منظور گیلانی نے بتایا کہ وہ لوگوں کو ساتھ رکھنے میں اس لیے بھی کامیاب رہتے تھے کہ سیاسی جماعت چھوٹی ہو یا بڑی، وہ سب کو ساتھ لے کر چلتے۔ اس کی ایک نادر مثال فیصل آباد میں اے آر ڈی کے جلسے میں سامنے آئی۔

نوابزادہ صاحب کو زحمت اور جلسے کو طوالت سے بچانے کے لیے منتظمین نے کئی مقررین کو خطاب کا موقع نہ دینے کا فیصلہ کیا اور نوابزادہ صاحب سے کہا کہ اگلی تقریر آپ کی ہوگی۔ اس موقع پر انہوں نے تمام مقررین کی فہرست طلب کر کے جائزہ لیا کہ کس کس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ چنانچہ نوابزادہ صاحب کے حکم پر وہاں موجود تمام ضروری مقررین کو خطاب کا موقع دیا گیا’۔

ان کی یہ خوبی ایسی تھی جس نے انہیں ایک غیر متنازع بزرگ کی حیثیت دے دی تھی اور لوگ آنکھ بند کر کے ان کی بات مان لیتے تھے۔

نوابزادہ صاحب اختلاف کرنے والوں اور اپنی ذات پر الزام لگانے والوں کے لیے بھی اپنے دروازے کھلے رکھتے۔ منظور گیلانی کے مطابق ایک چھوٹی جماعت کے ایک رہنما نے پریس کانفرنس میں الزام لگایا کہ نوابزادہ نصراللہ نے حکمران جماعت سے مالی فوائد اٹھائے ہیں۔ اس پریس کانفرنس کے چند روز کے بعد پتہ چلا کہ وہی صاحب نوابزادہ صاحب سے ملنے کے لیے آرہے ہیں۔ اس اطلاع پر ان کا ردعمل دلچسپ تھا۔ منظور گیلانی کے مطابق انہوں نے مسکراتے ہوئے حقے کا کش لگایا، اور ذرا سی آنکھ نچا کر کہا ’لو! وہ بھی آ گئے‘۔

وہ صاحب آئے، نوابزادہ صاحب کے گھٹنوں کو چھوا اور بیٹھ گئے، نوابزادہ صاحب نے احساس تک نہ ہونے دیا کہ چند روز پہلے وہ ان پر کتنا سخت الزام عائد کر چکے ہیں۔

‘ وہ ہمیشہ نرمی سے بات کرتے اور کسی کے بارے میں کبھی کوئی سخت لب و لہجہ اختیار نہ کرتے’۔

ہارون رشید نے بتایا۔

وہ بہت متواضع تھے۔ گرمیوں کے موسم میں اپنے باغات سے آموں کے تحائف دوستوں اور سیاست دانوں کو بھجوانا ان کی پرانی روایت تھی۔

سعید آسی کہتے ہیں میثاق جمہوریت والے اجلاس میں لندن جانے سے پہلے ایک دن انہوں اپنے چند دوستوں اور سینیئر صحافیوں کو لاہور میں اپنے تاریخی دفتر نکلسن روڈ پر مدعو کیا اور اپنے ہاتھ سے آم ‘پولے’ (نرم) کر کے کھلائے۔

‘ لوگوں نے سیاست میں جائیدادیں بنائیں لیکن نواب زادہ صاحب نے گنوائیں۔ وہ سیاست میں آئے تو ان کے پاس بے شمار زرعی زمین تھی۔ انہوں نے اپنی ساری سیاست زمین بیچ بیچ کر کی۔ سیاست میں آنے تک ان کے پاس 6 شاندار گاڑیوں کا ایک بیڑا تھا لیکن جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ایک بھی گاڑی ان کی ملکیت میں نہ تھی۔’

ہارون رشید مزید کہتے ہیں کہ نواب زادہ صاحب نے ہمیشہ سفید کرتا شلوار زیب تن کیا، شیروانی پہنی اور سر پر تحریک خلافت کی یاد گار سیاہ پھندنے والی سرخ ٹوپی رکھی جو پاکستان میں ترکی ٹوپی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ زندگی بھر کبھی کوئی ناشائستہ بات نہ کہی۔ کسی اختلاف پر زیادہ سے زیادہ کہا تو صرف یہ کہا

’ایسی بات آپ ہی کر سکتے ہیں‘۔

کئی سیاست دانوں کے ٹریڈ مارک بن جاتے ہیں، ان کا ٹریڈ مارک حقہ تھا جو سفر و حضر میں ہمیشہ ان کے ساتھ رہا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp