لالو کھیت کا لعل۔۔ عمر شریف

جمعہ 19 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ تحریر ابتدائی طور پر اکتوبر 2023 میں شائع کی گئی تھی جسے آج عمر شریف کی سالگرہ کے موقع پر وی نیوز کے قارئین کے لیے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔


قیام پاکستان سے قبل کراچی کے قدیمی علاقے لیاقت آباد کو ’لالو کھیت‘ کہا جاتا تھا کیونکہ یہاں سردار لال محمد باران عرف ’لالو‘ نامی زمیندار کے کھیت ہوا کرتے تھے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان ہوئے تو معززین علاقہ نے 1950 کے لگ بھگ اس علاقے کا نام ’لالو کھیت‘ سے بدل کر ’لیاقت آباد‘ کر دیا۔ لیکن سردار لال محمد باران کی لگائی کھیتی کا کمال ہے کہ آج بھی اس بستی کا پرانا نام نئے پر حاوی ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہاں جنم لینے والا ایک بچہ تھا جس نے ’لالو کھیت‘ کی شہرت کو ساری دنیا میں پھیلا دیا تھا۔

بہروز سبز واری، جاوید شیخ، عمر شریف اور دیگر فنکار

اپریل کی 19 تاریخ اور سن 1955 تھا جب لیاقت آباد میں کرائے کے گھر میں مقیم غریب گھرانے میں محمد عمر نے آنکھ کھولی۔ کئی بہن بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے تھے۔ 4 برس کے تھے جب والد نے انہیں یتیمی کا طوق پہنایا۔ ہوش سنبھالا تو 2 بڑے بھائی بھی محنت مزدوری میں غرق تھے۔ ماں اور بڑی بہن انہی کے زیرِ کفالت اچھے دنوں کی آس میں دن کاٹ رہی تھیں۔

محمد عمر پڑھائی سے زیادہ اہل محلہ اور عزیز و اقارب کی چال ڈھال اور آواز کی نقل اتارنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ محلے میں جو بھی فقیر آتا عمر اس کی ہوبہو نقل اتارتا اور اہل محلہ سے داد پاتا، کم سنی سے ہی کوئی فنکار ان میں پنپ رہا تھا۔ والدہ نے اپنے تئیں جتن کرکے ہار مان لی تھی اور بڑے بھائی بھی مار پیٹ کا ہتھکنڈہ آزما کر ناکام ہوئے تو محمد عمر کو مرضی کی زندگی گزارنے کا لائیسنس مل گیا تھا۔

بہروز سبز وای، معین اختر، لہری اور عمر شریف

محمد عمر نے زندگی کی 12ویں سیڑھی پر قدم رکھا تو اداکاری کا شوق انہیں سینما بینی کی جانب لے گیا۔ پیسے پس انداز کرکے فلم دیکھنا معمول بن چکا تھا۔ غربت زدہ ماحول میں شوق کی آبیاری کے لیے خود بھی محنت مزدوری شروع کر دی تھی۔ ان دنوں آدم جی ہال کراچی میں سٹیج ڈرامے ہوا کرتے تھے۔ کسی دوست نے راہ دکھائی تو وہاں کی کینٹین میں ملازمت کرلی لیکن تھیٹر کا دروازہ ان پر نہ کھل سکا۔ لوگوں کی چائے اور کھانے پینے سے تواضع کرتے بلکہ انہیں اپنی منفرد صلاحیتیوں اور مشاہدے کے جوہر بھی دکھاتے لیکن ہنوز دلی دور است۔

ان دنوں آدم جی ہال میں صمد یار خان کی ڈائریکشن میں ڈرامہ جاری تھا۔ معروف اداکار اے کے پٹیل، ہندو جوتشی کا کردار نبھا رہے تھے انہیں بیوی کے انتقال کی اطلاع ملی تو وہ ڈرامہ چھوڑ کر چلے گئے۔ کچھ دیر میں شو شروع ہونا تھا اسی پریشانی میں صمد یار خان کے اسسٹنٹ نے انہیں محمد عمر کا بتایا کہ وہ یہ کردار کرسکتا ہے۔ مجبوراً محمد عمر کو کردار دیا گیا اور میک اپ کے دوران ہی انہیں ڈائیلاگز پڑھ کر سنائے گئے۔ کردار کی ڈرامے میں صرف 3 انٹریاں تھیں۔

سنہرے مستبقل کی آس، اپنی صلاحتیوں پر اعتماد اور دھڑکتے دل کے ساتھ محمد عمر نے پہلی انٹری دی۔ ڈائیلاگز کے مطابق خود کو کردار میں ڈھالا اپنی طرف سے جنتر منتر بھی پڑھے، آخری موقع جان کر جان کی بازی لگادی اور یہی وجہ تھی کہ انٹری ختم ہونے پر شائقین نے ہال میں کھڑے ہوکر تالیاں بجائیں۔

ڈرامے کا سپیل ختم ہوا تو ڈائریکٹر کی جانب سے معاوضے کی مد میں 5 ہزار روپے اور انعام کے طور پر موٹرسائیکل اور سال بھر کے لیے پیٹرول دیا گیا۔ چھوٹے سے کردار نے 14 برس کے محمد عمر کا دل اور دماغ ہی نہیں بلکہ بھرپور زندگی کی طرف جانے والے سبھی رستے بھی کھول دیے تھے۔

فرقان حیدر کراچی تھیٹر کا معروف اور کامیاب نام تھا۔ معین اختر جیسے نابغہ روزگار فنکار بھی ان کی ٹیم کا حصہ تھے۔ ایک روز محمد عمر، ان کے گھر چلے گئے کہ انہیں بھی ٹیم میں شامل کیا جائے۔ فرقان حیدر نے کہا میں نے آپ کا کام دیکھا ہے، شاندار ہے لیکن میری ٹیم میں شامل ہونا چاہتے ہو تو کسی بڑے کو ساتھ لیکر آؤ۔

محمد عمر نے والدہ کو راضی کیا اور وہ فرقان حیدر کے پاس آئیں کہ میرے ننھے (محمد عمر کا نک نیم) کو بھی اداکاری کا موقع دیں۔ کراچی تھیٹر کی تاریخ گواہ ہے کہ محمد عمر اور فرقان حیدر کی جوڑی نے سٹیج کی دنیا میں کیسے کیسے ناقابل تسخیر ریکارڈ قائم کیے۔

محمد عمر کو پاکستانی اداکار ’شہنشاہ ظرافت‘ منورظریف بہت پسند تھے، انہیں غائبانہ استاد مانتے تھے، اسی مناسبت نام بدل کر عمر ظریف کرلیا تھا۔ تاہم جب مصری اداکار عمرشریف کی فلم ’لارنس آف عربیہ‘ دیکھی تو نام کو ہمیشہ کے لیے عمرشریف کرلیا۔

سٹیج ڈراموں میں پرواز کے ساتھ ساتھ آڈیو کیسٹ کے زمانے میں ’عمرشریف شو‘ کے نام سے 5 کیسٹز بھی جاری کیں جنہوں نے نہ صرف نیا معیار قائم کیا بلکہ عمرشریف کی شہرت کو پَر بھی لگا دیے تھے۔

عمر شریف اور معین اختر ساتھی فنکار کے ہمراہ

معین اختر کی رفاقت کی بدولت محمد عمر کو پاکستان ٹیلی وژن میں ’ففٹی ففٹی‘ اور چند دیگر ڈراموں میں مختصر کردار دیے گئے لیکن وہاں جاری گروہ بندی اور محمد عمر کا خداداد ٹیلنٹ ہی ان کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا تھا کہ ’مجھے پی ٹی وی پر موقع نہیں دیا گیا، لوگ گھبراتے تھے، لیکن شاید اس وقت میرے نصیب میں ہی نہ تھا، کیوں کہ وقت سے پہلے اور مقدر سے زیادہ کسی کو کچھ نہیں ملتا۔‘

عمرشریف نے روایتی تھیٹر کو بدل کر رکھ دیا تھا، ان کا کرشمہ یہ تھا کہ وہ ڈرامے کے موضوعات کو نہ صرف زمین پر لے آئے تھے بلکہ ان کے ڈائیلاگز اور زبان بھی زمین سے جڑے افراد کی تھی، بلکہ تھڑے اور ڈھابے کی زبان تھی۔ عمر شریف کا خاصہ ان کی پرفیکٹ ٹائمنگ، برجستگی اور فی البدیہہ جملے بازی تھی۔ لالو کھیت، چھچھورا، ابے او، بڈھا اور لعنت جیسے الفاظ ان کے ڈراموں میں عام تھے۔ ان پر کڑی تنقید بھی کی گئی لیکن شائقین ڈرامہ انہیں پسند کرتے تھے۔

عمرشریف نے 70 سے زائد ڈراموں کے سکرپٹ لکھے جن میں اداکار اور ہدایتکار بھی وہ خود تھے۔450 سے زائد کردار نبھائے۔ ان کے سبھی ڈراموں نے دنیائے اردو میں مقبولیت کے ریکارڈز قائم کیے۔ 6 فلمیں بھی ڈائریکٹ اور پروڈیوس کیں۔ 5 کتابیں لکھیں جو روحانیت، ڈرامے، فلم، شاعری اور افسانوں پر مبنی ہیں۔ انہوں نے ہی سٹیج ڈرامے ریکارڈ کرنے کی طرح بھی ڈالی۔

90 کی دہائی میں کراچی سے لاہور منتقل ہوئے، شمع سنیما کو لاہور تھیٹر میں بدلا اور کئی یادگار ڈرامے پیش کیے۔ فلم ’مسٹر 420‘ کے لیے 2 نیشنل اور 4 نگار ایوارڈز بھی ملے جو ایک منفرد اعزاز ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔

ماں سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ان کے پاؤں دبائے بغیر کبھی اپنے بستر پر نہیں جاتے تھے۔ ایک بار سٹیج ڈرامہ کرنے سے پہلے والدہ کے انتقال کا پتا چلا لیکن کمٹمنٹ کے باعث ڈرامہ مکمل کرکے شائقین کو جنازے کا وقت بتایا گیا۔ ساتھی فنکاروں اور غربا کی کھلے دل سے مدد کرتے تھے۔ فلاحی تنظیم عمر شریف ٹرسٹ بھی قائم کی،پھر غریبوں کے مفت علاج کے لیے ’ماں‘ اسپتال بھی بنایا تھا۔

عمر شریف ماں اسپتال میں میڈٰیا سے گفتگو کرتے ہوئے۔ دیوار پر ان کی والدہ اور والد کے پورٹریٹ آویزاں ہیں

شہرت کی دیوی رام ہونے پر دنیا بھر میں شوز کیے، انہیں بھارت میں بھی کئی کامیڈی شوز میں بطور جج بلایا گیا۔ تمام بڑے بھارتی اسٹارز ان کے مداح ہیں۔ پاکستان میں بھی مختلف نجی ٹی وی چینلز پر شوز کیے۔ کینسر اسپتال شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ میں بھی عمر شریف کا اہم کردار تھا، اس کے لیے انہوں نے عمران خان کے ہمراہ دنیا بھر میں بے تحاشا شوز کیے۔

عمر شریف، عمران خان کے ساتھ خوشگوار موڈ میں

عمرشریف نے 3 شادیاں کیں، ان کی پہلی بیگم دیبا عمر ہیں، دوسری شکیلہ قریشی تھیں اور تیسری زرین غزل ہیں۔ پہلی بیگم سے ان کے 2 بیٹے جواد عمر شریف اور فواد عمر شریف ہیں جبکہ صاحبزادی حرا عمر شریف تھیں۔ 17 فروری 2020 کو ان کی بیٹی حرا عمر شریف گردوں کی پیوندکاری میں پیچیدگی کے باعث لاہور میں انتقال کر گئی تھیں۔ عمر شریف شوز کے لیے امریکا میں تھے تاہم بیٹی کے انتقال کی اطلاع ملنے پر وہ فوراً واپس لوٹ آئے تھے۔

عمر شریف، بیگم دیبا عمر، بیٹی اور بیٹے کے ہمراہ

لاڈلی اور اکلوتی بیٹی حرا شریف کی جدائی کا غم ان کے لیے روگ بن گیا تھا، جب بھی بیٹی کا ذکر کرتے تو آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ اسی کیفیت کا نتیجہ تھا کہ ستمبر 2021 میں ان کی طبیعت بگڑ گئی۔ پرستاروں کے دباؤ پر حکومت سندھ نے بیرون ملک علاج کے لیے 4 کروڑ روپے جاری کیے۔

ستمبر 2021: ایم کیو ایم رہنما فاروق ستار، کراچی اسپتال میں عمر شریف کی عیادت کرتے ہوئے

انہیں 28 ستمبر کو کراچی سے براستہ جرمنی ایئر ایمبولینس کے ذریعے امریکا منتقل کیا جا رہا تھا کہ طبیعت مزید بگڑنے پر عارضی طور پر جرمنی میں اتار لیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ 66 برس کی عمر میں 2 اکتوبر 2021ء کو نیورم برگ جرمنی میں انتقال کر گئے۔ وہ عارضہ قلب اور شوگر سمیت مختلف امراض میں مبتلا تھے۔

عمر شریف کو ایئر ایمبولینس پر امریکا منتقل کیا جا رہا ہے

عمر شریف صرف اداکار ہی نہیں میزبان، فلم ساز، ہدایت کار، شاعر، موسیقار، کہانی نویس اور مصور بھی تھے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’قبر سے گھبراتا ہوں کہ وہ انسان کے اعمال اور کردار بتاتی ہے‘۔ لالو کھیت کا لعل، عبداللہ شاہ غازی کے مزار میں ان کے پہلو میں سُپردِ خاک ہے۔

’’آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے‘‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp