بھارتی سکھ نے ’گردوارہ نانک سر‘ کی بحالی کی اپیل کر دی

پیر 2 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نانک سرسکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئےتاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں گورونانک دیو جی نے مکہ اور مدینہ جاتے اور آتے ہوئے ایک ایک ماہ سے زیادہ قیام کیا۔

انڈین پنجاب کے شہر لدھیانہ کے رہائشی پروفیسر سربجیت سنگھ سکہ خاندان کی ساتویں پشت سے ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد نے نانک سر کو آباد کیا تھا اور1947 تک یہیں رہے تھے۔

وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں انکا کہنا ہے کہ بھگت سنگھ سکہ خاندان کے جد امجد ہیں۔ وہ اپنے اسلاف کے بارے میں مختصر تاریخ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں ذیلی ذات کا سکہ گرو گوبند سنگھ جی نے آنند پور صاحب میں اس وقت دیا تھا جب بابا بھگت سنگھ قلعے میں سکھوں کے گھوڑوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ اس دوران کسی نے شکایت کی کہ بھگت سنگھ اور ان کی اہلیہ اپنا کھانا لنگر سے لے رہے ہیں اور تنخواہ بھی لیتے ہیں۔

گرو گوبند سنگھ جی نے بھگت سنگھ کو بلایا اور ان سے پوچھا تو بابا بھگت سنگھ نے عاجزی سے جواب دیا کہ میں گھوڑوں کے پیٹ سے ہضم نہ ہونے والے اناج کو صاف اور خشک کرتا ہوں، اسے پیس کر چپاتی بنانے کے لیے آٹا بناتا ہوں اور ہم دونوں (میاں بیوی) لنگر سے کھانا کھانے کی بجائے اسے کھاتے ہیں۔

یہ سن کر گرو گوبند سنگھ جی بہت خوش ہوئے اور انہیں گلے لگا کر ضلع جھنگ مگھیانہ (موجودہ ضلع جھنگ) کے قریب واقع نانک سر میں یہ کہہ کر بھیج دیا کہ تمہاری ہنڈی چلے گی اور ایسا ہی ہوا۔

بابا بھگت سنگھ انکے حکم پر جھنگ مگھیانہ کے قریب واقع نانک سر پہنچ گئے۔ یہ جگہ گھنا جنگل تھی۔ قریب پہنچ کر بھی انہیں جگہ تلاش کرنے میں مشکل درپیش تھی۔ صبح سویرے جب وہ مراقبہ کر رہے تھے، گرو گوبند سنگھ جی نے ان سے کہا کہ میرے پیچھے چلو۔ بابا بھگت سنگھ جی نے پیروی کی، پھر گرو گوبند سنگھ جی نے دربار ہال (گرودوارہ)، لنگر ہال، سروور، دھرم شالہ وغیرہ کی جگہوں کی نشاندہی کی۔

صبح جب وہ بیدار ہوئے اور اس جگہ کا دورہ کیا جس کے بارے میں گرو گوبند سنگھ جی نے مراقبہ کے دوران بتایا تھا تو انہوں نے دیکھا کہ تمام جگہوں پر گھوڑے کے سموں کے نشان تھے۔ بعد میں بابا بھگت سنگھ نے سکھ سنگت کی مدد سے گرو گوبند سنگھ جی کی خواہش کے مطابق تعمیر کروائی۔

پروفیسر سربجیت کے مطابق بھگت سنگھ عمر بھرسچے پات شاہ جی کے قدموں میں انہیں آستانوں پرانکی سیوا کرتے رہے۔ وقت آنے پر ان کا کاروبار بھی چلا، کیونکہ انہیں گروگوبند سنگھ صاحب نے کہا تھا کہ تمہارا سکہ چلے گا۔ تمہارئ ہنڈی چلے گی۔ جسے وہ لکھ کر دیں گے وہ انکے نام اور دستخط دیکھ کر جتنے پیسے وہ لکھیں گے اتنے پیسے اس شخص کو دے دیئے جائیں گے۔ وچن پورا ہوتے ہی ان کا کاروبار بڑھا اور ان کے نام پر ہنڈی بھی چلتی رہی۔ اس لئے ہمارا خاندان ، سکہ خاندان بہت مشہور ہوا۔

پروفیسر سربجیت  نے مزید بتایا کہ ان کے جد امجد بھگت سنگھ نے ویسٹرن پنجاب، جو آج کل پاکستان کا حصہ ہے، میں گورو صاحب کا امرت پرچار بھی کیا، سکھ ازم کا پرچار بھی کیا۔ سکہ خاندان پسشت در پشت 1947 تک وہیں رہے۔ 1947 میں جب پاکستان اور انڈیا الگ ہوئے تو یہ جگہ وہیں رہ گئی مگر جتنے بھی سکہ خاندان کے افراد تھے وہ انڈیا میں آگئے اور سربجیت سنگھ سکہ انکی آٹھویں پشت سے ہیں۔

انہوں نے درخواست کی ہے کہ یہ تاریخی جگہ ہے۔ پاکستان سکھ گردوارہ پربندھک کیمٹی یا پاکستان گورنمنٹ اس جگہ کی دیکھ بھال کرے تاکہ سنگتیں اس جگہ پر پہنچ کر گورو صاحب کا آشرواد لے سکیں۔

اس جگہ پر تعمیر عمارت انتظامیہ کی توجہ چاہتی ہے۔ حکومت اگر اس عمارت کو اپنی اصل حالت میں بحال کرکے سیاحوں کے لئے کھول دے تو دنیا بھر سے ہر سال بڑی تعداد میں سکھ اس کا دورہ کریں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp