افغان باشندوں کو پاکستان سے بے دخل کرنے کے لیے کیا پلان تیار کیا گیا ہے؟

پیر 2 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں 20 لاکھ سے زائد افغانی غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔ افغان باشندے لاکھوں کروڑوں کے کاروبار کر رہے ہیں، جائیدادیں خرید رہے ہیں جو کہیں بھی  رجسٹرڈ نہیں، وہ نہ صرف حوالہ ہنڈی اور مختلف جرائم میں ملوث ہیں بلکہ انسانی، اجناس اور ڈالرز کی سمگلنگ میں بھی مصروف ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد مزید افغانیوں نے پاکستان کا رخ کیا ہے۔ اس وقت ملک کے ہر حصے میں غیر قانونی افغانی مقیم ہیں، ملک میں حالیہ دہشت گردی کی لہر میں اضافے کے بعد حکومت نے غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغانیوں کو بے دخل کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کر لی ہے۔

حکومت نے غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کو فوری طور پر گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام آباد، راولپنڈی، خیبر پختونخوا اور ملک کے دیگر علاقوں سے سینکڑوں افغانیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اگلا مرحلے میں غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغانیوں کے وہ کاروبار جو رجسٹرڈ نہیں، انہیں بند کیا جائے گا۔ حکومت کا غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں سے نمٹنے کے لیے حتمی پلان وزارت داخلہ آئندہ چند روز میں پریس کانفرنس کے ذریعے شیئر کرے گی۔

وزارت داخلہ کے مطابق غیر قانونی طور پر مقیم افغانی جرائم میں ملوث ہیں اور انہوں نے پاکستان میں غیر قانونی کاروبار شروع کر دیے ہیں۔ افغانی پاکستان میں کروڑوں روپے مالیت کا کاروبار کر رہے ہیں اور ٹیکس بھی نہیں دیتے۔ ناں ہی ایف بی آر میں رجسٹرڈ ہیں، حکومت کے پاس اس وقت کوئی ایسا سسٹم نہیں جس سے وہ غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں اور ان کے کاروبار سے متعلق کوئی معلومات حاصل کر سکے۔

نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے مطابق افغانیوں نے پاکستان میں منظم گروپس بنائے ہوئے ہیں جو حوالہ ہنڈی کا کاروبار کر رہے ہیں، سمگلنگ کر رہے ہیں، پاکستان سے ڈالر بھی اور دیگر اشیائے خورونوش بھی سمگل کر رہے ہیں، ایسے تمام افغانیوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور کسی کو بھی معافی نہیں دی جائے گی۔

حکومت نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ متعلقہ ضلعوں میں مقیم افغان باشندوں کا مکمل ڈیٹا تیار کرے اور یہ معلوم کرے کہ افغانی کہاں کہاں رہائش پذیر ہیں۔ کون سے کاروباری مراکز میں کاروبار کر رہے ہیں۔ پولیس کو 5 دن میں رپورٹ مرتب کرکے جمع کرانے کی ہدالت بھی کی گئی ہے۔

سینئر صحافی حماد حسن نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے لیے غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کو بے دخل کرنا بہت مشکل چیلنج ہوگا۔ بیشتر افغانوں نے نادرا سے جعلی شناختی کارڈ حاصل کر رکھے ہیں۔ کاروبار شروع کیے ہوئے ہیں یا جو پراپرٹی خریدی ہے اس میں مقامی افراد کے ساتھ شراکت داری کی ہوئی ہے۔ ایسے میں حکومت کے لیے یہ تعین کرنا مشکل ہوگا کہ کون سے افغان غیر قانونی مقیم ہیں اور کون سے افغانوں کی یہاں کون کون سی پراپرٹی ہے اور وہ کیا کیا کاروبار کر رہے ہیں۔

حماد حسن نے کہا کہ 1951 میں ہونے والے جنیوا کنونشن کے مطابق پاکستان میں مقیم افغانوں کو مہاجر کا درجہ حاصل نہیں کیونکہ پاکستان نے جنیوا کنونشن پر دستخط نہیں کیے۔ افغانوں کو مہاجر کے طور پر نہیں رکھا بلکہ انسانی ہمدردی کے طور پر رکھا ہے۔  پشاور ہائیکورٹ نے ماضی میں ایک فیصلہ دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ افغانوں کے وہ بچے جو پاکستان میں پیدا ہوں گے وہ پاکستانی شہری ہوں گے تو فیصلے پر بہت اعتراض سامنے آیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp