نوازشریف کو سیاست کے پل صراط کا سامنا

منگل 3 اکتوبر 2023
author image

پرویز سندھیلا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جس دن میاں شہبازشریف نے بڑے بھائی کے ساتھ کھڑے ہوکر ان کی واپسی کا اعلان کیا، واپسی کی باقاعدہ تاریخ دی اور استقبال کی تیاریوں کا آغاز ہوا، اُس دن سے لے کر آج تک ملک میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے۔

پہلے تو اچانک سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی سیاسی منظر نامے میں اینٹری مارتے ہیں۔  صدر مملکت عارف علوی سے ملاقات کرنے کے بعد میڈیا کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں اور مفاہمت کا سبق پڑھانا شروع کردیتے ہیں، فوج سے محاذ آرائی نہ کرنے کے فوائد بیان کرتے ہیں، تاثر دیتے ہیں کہ پی ٹی آئی نہیں چاہتی کہ فوج سے لڑائی کی جائے، ملاقاتوں کا یہ سلسلہ بڑھتا ہے۔

صدر علوی صاحب بچی کچھی پی ٹی آئی کے ایک وفد جس میں سابق اسپیکر اسد قیصر، ترجمان تحریک انصاف رؤف حسن اور دیگر کچھ لوگوں سے محمد علی درانی کی ملاقات کا انتظام کرتے ہیں۔ اسی دوران پشاور اور لاہور میں سانحہ 9 مئی کے ملزمان کی صرف ضمانتیں ہوتی ہیں، رہائی نہیں ہوتی۔ سوشل میڈیا پر ایک مہم کا اغاز ہوجاتا ہے کہ ’محمد علی درانی کی ملاقاتوں اور ڈیل کا نتیجہ نکلنا شروع ہوگیا، ضمانتیں ہونا شروع ہوگئیں، اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان سے ڈیل کی کوششیں شروع کردیں‘ اس مہم کا مقصد اور ٹارگٹ بہت باریک تھا کیونکہ محمد علی درانی کی اس ساری مفاہمتی کارروائی سے تاثر یہی مل رہا تھا کہ جیسے انہیں اسٹیبلشمنٹ نے کوئی مینڈیٹ دیا ہے۔

ایک طرف میاں نوازشریف کی واپسی کے اعلان کو ن لیگ کے ورکر تازہ ہوا کا جھونکا محسوس کررہے تھے کہ اب ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ لیکن جب یہ مہم چلی تو ن لیگ کے کارکنوں کے ذہن میں سوالات اٹھنے لگے کہ نوازشریف کی واپسی کے اعلان کے ساتھ ہی ہو ا کا رخ بدل رہا ہے یا پھر بدل گیا ہے، بد گمانی نے ڈیرے ڈالنا شروع کردیے۔ یہی اس مہم جوئی کا مقصد تھا کہ لندن میں نوازشریف اور پاکستان میں ن لیگ کے ورکر کو کنفیوژ کیا جائے۔ ان کے جذبات کو چھیڑا جائے اور پھر انہی جذبات میں بہہ کر وہ اسٹیبلشمنٹ کو برا بھلا کہنا شروع کردیں اور پی ٹی آئی اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائے اور اپنے لیے راہ ہموار کرلے۔

یہ پلاننگ تب ناکام ہوئی جب سانحہ 9 مئی کے ملزمان کی دوبارہ گرفتاریاں ہوئیں۔ رہی سہی کسر محمد علی درانی اور عارف علوی کے بچھائے جال کی حقیقت عیاں کرکے پوری کردی گئی۔ بتایا گیا کہ محمد علی درانی اسٹیبلشمنٹ کے خود ساختہ ترجمان بنے ہوئے ہیں، انہیں ایسا کوئی مینڈیٹ نہیں دیا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی عمران خان سے ڈیل کرائیں۔ درحقیقت محمد علی درانی، عارف علوی سے دیرینہ رفاقت رکھتے ہیں اور اسی رفاقت کے پیش نظر یہ چال چلی گئی۔ جس کا ٹارگٹ ن لیگ تو تھی ہی ساتھ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا بریگیڈ اور عام کارکن بھی تھے۔ انہیں طفل تسلیاں دینا بھی مقصود تھا تاکہ وہ حوصلے پست نہ کر بیٹھیں۔

نوازشریف کی واپسی تک ایسے بہت سے اتار چڑھاؤ آئیں گے، ہر ممکن کوشش کی جائے گی کہ حالات پلٹا کھا جائیں اور نوازشریف واپس نہ آئیں کیونکہ نوازشریف کی واپسی ہی گیم چینجر ہے۔ ن لیگ کی بہت سی انتخابی مشکلات نواز شریف کی پاکستان واپسی سے  دور ہوجائیں گی۔ باقی مشکلات کو نوازشریف خود عوام میں اتر کر دور کرسکتے ہیں کیونکہ وہ واحد لیڈر ہیں جو اس وقت پاکستان کی سیاست میں سب سے زیادہ تجربہ رکھتے ہیں۔ انہیں پتا ہے کہ عوام کے سامنے حقائق کیسے رکھنے ہیں اور انہیں کس انداز میں مطمئن کرنا ہے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ نوازشریف کی وطن واپسی اس وقت پاکستانی سیاست کے پُل صراط عبور کرنے کے مترادف ہے۔  نوازشریف کو چاہیے اپنے تمام پتے واپسی تک سینے سے لگاکر رکھیں۔ وقت سے پہلے پتوں کا ظاہر کرنا بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

اب ذرا بات پی ٹی آئی کی ڈیل پر بھی ہو جائے۔ تو پاکستانیوں نے نائن الیون کا ذکر سنا تھا، اس کی شدت اور نوعیت کو اس واقعے کے آفٹرشاکس اور کارروائیوں سے محسوس کیا تھا۔ ان کارروائیوں کا نشانہ مسلمان بنے تھے اور متاثرین میں پاکستان بھی شامل تھا۔ سو، پاکستانی عوام کے ذہن میں یہ نقش ہے کہ نائن الیون جیسا واقعہ کسی بھی ملک کی سالمیت پر حملہ ہے۔ جب پاکستان میں سانحہ 9 مئی ہوا تب عوام نے محسوس کیا کہ یہ ملکی سالمیت پر بڑا سوال ہے۔ پھر اسے پاکستان کا نائن الیون قرار دے کر کارروائیاں بلا تفریق شروع کی گئیں۔ فوج نے احتساب کا عمل اپنے گھر سے شروع کیا، سب سے پہلے اسے صاف کیا۔ جو لوگ اس میں ملوث تھے انہیں کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک مثال قائم کرنے کے بعد دیگر انتشاریوں کا رخ کیا گیا۔

سانحہ 9 مئی پاکستان کا نائن الیون ہے، اس کے مجرمان کو معاف کرنا ایسے ہی ہوگا جیسے ہم نے ایسے پرتشدد واقعات کو سیاست میں جائز قرار دے دیا۔ سانحہ 9 مئی کے ملزمان صرف ن لیگ کے نہیں فوج اور قوم کے مجرم ہیں۔ انہیں کیفرکردار تک پہنچا نا ملکی سالمیت کی حفاظت کے مترادف ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp