پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد میاں محمد نواز شریف کی 21 اکتوبر کو وطن واپسی کا اعلان کیا گیا ہے اور پارٹی قیادت کے مطابق اس اعلان میں تبدیلی کا امکان نہیں لیکن قائد ن لیگ کو وطن واپسی پر 3 مقدمات کا سامنا کرنا ہو گا جن کے لیے انہیں عدالت کے سامنے پیش ہونا پڑے گا لیکن اس سے قبل انہیں گرفتاری سے بچنے کے لیے 2 مقدمات میں حفاظتی ضمانت درکار ہو گی۔
نواز شریف کو جن 2 مقدمات میں حفاظتی ضمانت درکار ہو گی ان میں العزیزیہ کرپشن ریفرنس اور جبکہ ایون فیلڈ کرپشن ریفرنس شامل ہیں جن میں انہیں بالترتیب 7 اور 10 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔
ان دونوں مقدمات میں عدم پیشی پر میاں نواز شریف کو دسمبر 2020 میں اشتہاری قرار دیا گیا تھا جبکہ وہ نومبر 2019 میں لاہور ہائی کورٹ کو لندن میں 4 ہفتے علاج کروانے کے بعد واپسی کی یقین دہانی پر ملک سے باہر گئے تھے۔ تیسرا مقدمہ توشہ خانہ تحائف سے متعلق ہے لیکن وہ ابھی ٹرائل کے مرحلے میں ہے۔
نواز شریف اور مسلم لیگ ن کی قیادت نے اپنے قائد کو گرفتاری سے بچانے کے لیے کیا قانونی پیش بندی کی ہے یہ جاننے کے لیے وی نیوز نے ان کی قانونی ٹیم کے رکن امجد پرویز ایڈووکیٹ سے بات کی۔
میاں نواز شریف مختلف لوگوں سے قانونی مشورے کر رہے ہیں، امجد پرویز ایڈووکیٹ
امجد پرویز ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف کو گرفتاری سے بچانے کے لیے جو قانونی پیش بندی کی گئی ہے اسے فی الحال پبلک نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں قانونی مشاورت جاری ہے اور میاں نواز شریف مختلف لوگوں سے قانونی آرا لے رہے ہیں اور جونہی قانونی حکمت عملی کو حتمی شکل دے دی جائے گی اس کی تفصیلات میڈیا سے شیئر کردی جائیں گی۔
رکن قانونی ٹیم نے کہا کہ میاں نواز شریف کی العزیزیہ اور ایون فیلڈ کرپشن ریفرنسز میں اپیلیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں اور ان کے خلاف توشہ خانہ کرپشن ریفرنس احتساب عدالت میں زیر التوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان مقدمات میں حفاظتی ضمانتوں کے لیے درخواستیں الگ الگ بھی دی جاسکتی ہیں اور ایک ساتھ بھی دی لیکن فی الحال اس قانونی حکمت عملی کو خفیہ رکھا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں
عمران شفیق ایڈووکیٹ
نیب کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق ایڈووکیٹ نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے پیش ہونے کے لیے میاں نواز شریف پاکستان واپسی سے پہلے کسی بھی عدالت سے بھی حفاظتی ضمانت لے سکتے ہیں لیکن اگر وہ حفاظتی ضمانت نہیں لیتے تو انہیں جہاز سے اترتے ہی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
عمران شفیق نے کہا کہ کچھ سینیئر وکلا کی رائے یہ ہے کہ وطن واپسی پر میاں نواز شریف کو جیل جانا پڑے گا لیکن میری رائے میں اگر وہ اپنے وکلا کے ذریعے عدالت کو قائل کر پائے کہ ان کی عدالت سے غیر حاضری ارادی نہیں بلکہ اس میں کچھ حقیقی مجبوریاں حائل تھیں تو عدالت سے انہیں ریلیف مل سکتا ہے اور ویسے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ ایون فیلڈ کرپشن ریفرنس میں جن بنیادوں پر مریم نواز کو بری کر چکی ہے ان کا اطلاق میاں نواز شریف پر بھی ہوتا ہے اور العزیزیہ کرپشن مقدمہ تو جج ارشد ملک کی ویڈیو اور اسی سے جڑی ہوئی آڈیوز کی وجہ سے کافی کمزور ہو چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پھر بھی اگر میاں نواز شریف کو جیل جانا پڑا تو شاید وہ چند دنوں کی قید ہو۔
جب ان سے دریافت کیا گیا کہ میاں نواز شریف ان مقدمات میں اشتہاری ہیں تو کیا ایک اشتہاری اس طرح ضمانت یا سزا کی معطلی کا مطالبہ کر سکتا ہے تو انہوں نے کہا کہ اس بات کا انحصار بھی اس پر ہے کہ میاں نواز شریف کے وکلا کس طرح عدالت کو قائل کرتے ہیں کہ وہ بغرضِ علاج ملک سے باہر رہے اور عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔
عمران شفیق کا کہنا تھا کہ اگر ان کے وکلا عدالت کے سامنے ایسے حقائق رکھ پائے جن سے میاں نواز شریف کی عدالت سے غیر حاضری کا کوئی جواز نکلتا ہو تو اس سے ان کو نہ صرف ضمانت مل جائے گی بلکہ ان کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرالتوا اپیلیں بھی بحال ہو جائیں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حفاظتی ضمانت ایک حق ہے اور اگر ایک اشتہاری بھی یہ کہے کہ وہ عدالت کے سامنے پیش ہونا چاہتا ہے تو اس کو خفاظتی ضمانت دے دی جاتی ہے۔
آصف سعید کرمانی
پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما ڈاکٹر آصف سعید کرمانی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف وطن واپسی پر خود کو آئین و قانون کے مطابق عدالت کے سامنے سرینڈر کریں گے۔
ڈاکٹر آصف سعید کرمانی نے بتایا کہ 21 اکتوبر کو وطن واپسی پر میاں نواز شریف پہلے مینار پاکستان جائیں گے جہاں وہ ایک جلسے سے خطاب کریں گے اور اس سے اگلے دن وہ عدالت کے سامنے پیش ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری قانونی ٹیم کو اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز ایڈووکیٹ لیڈ کر رہے ہیں اور وہ اس حوالے سے قانونی حکمت عملی وضع کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ العزیزیہ اور ایون فیلڈ کرپشن ریفرنسز میں حفاظتی ضمانت دائر کی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایون فیلڈ میں جن وجوہات کی بنا پر مریم نواز کو مقدمے سے بری کیا گیا انہی وجوہات کا اطلاق میاں نواز شریف کے مقدمے پر بھی ہو گا جبکہ العزیزیہ کا فیصلہ تو ویسے ہی کافی مشکوک ہو چکا ہے۔
ڈاکٹر آصف سعید کرمانی نے واضح کیا کہ 21 اکتوبر کو میاں نواز شریف کی واپسی کے شیڈول میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں اور وہ ہر صورت اعلان شدہ تاریخ تک پاکستان آجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کی واپسی سے قبل میاں شہباز شریف اور مریم نواز نے عوامی رابطہ مہم شروع کر دی ہے جبکہ جنوری میں ممکنہ انتخابات کے لیے ن لیگ کے قائد انتخابی مہم کی قیادت کریں گے۔