افغانستان کے کراچی میں تعینات قونصل جنرل عبد الجبار نے وی نیوز کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان میں مقیم افغانیوں کو اتنا جلد نہیں نکالنا چاہیے، غیر قانونی لوگوں کو واپس افغانستان جانے کے لیے اتنا وقت ملنا چاہیے کہ وہ اپنی تیاری کر سکیں۔
انکا کہنا تھا کہ پاکستان میں پہلے افغانیوں کے لیے مشکلات نہیں تھیں، 40، 45 برسوں سے افغانی یہاں مقیم ہیں۔ ایسے بھی افغانی عرصہ دراز سے یہاں مقیم ہیں جن کے پاس کارڈ نہیں ہے۔ لیکن اب جو حکومت پاکستان کی جانب سے انکے انخلاء کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا ہے گیا ہے میں سمجھتا ہوں یہ مناسب نہیں ہے۔
غیر قانونی افغانوں کو واپس جانے کا کہا گیا ہے پکڑنے کا نہیں
عبد الجبار کا کہنا ہے کہ پورے پاکستان میں 10 لاکھ سے زائد غیر قانونی افغان موجود ہیں لیکن اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ قانونی و غیر قانونی دونوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے، پولیس قانونی افغانیوں کو حراست میں لیتی ہے رقم کا مطالبہ کرتی ہے رقم نا ہونے کی صورت میں انہیں جیل بھیج دیا جاتا ہے۔
انہوں نے خاص طور پر سائٹ سپر ہائی وے تھانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں بہت ایکٹو نظر آرہا ہے۔ کچھ قانونی افغانیوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ ایک ماہ سے گھر نہیں جا پا رہے ہیں، احکامات غیر قانونی افغانیوں کے لیے ہیں جبکہ قانونی افغانیوں کو بھی گرفتار کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ غیر قانونی افغانیوں کو بھی پکڑنے کا نہیں کہا گیا ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے، اس وقت پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے مشکل بنائی جارہی ہے۔
حکومت پاکستان سے بات چیت چل رہی ہے لیکن مسائل حل نہیں ہو پا رہے
افغان قونصل جنرل کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر ہماری بات چیت وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ دیگر اسٹیک ہولڈرز سے بھی چل رہی ہے، ہم نے سب کو ان مسائل سے آگاہ کردیا ہے لیکن مسائل حل نہیں ہو پا رہے۔ جب حامد کرزئی افغانستان میں رہ سکتے ہیں تو عام شہری کو کیا مسئلہ ہے، جو نہیں رہنا چاہتے وہ یورپ جانے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں۔
عبد الجبار نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اس بیان پر کہ طالبان حکومت سے ڈر کر لوگ پاکستان جارہے ہیں کو طالبان حکومت کے خلاف پروپیگنڈا قرار دیا، طالبان حکومت نے عام معافی کی ایک مثال قائم کی صحابہ کرام کے دور کے بعد ایسی مثال آپ کو بہت کم ملے گی کہ اپنے دشمن کو معاف کیا ہو اور اسی معافی کا فائدہ اٹھا کر بہت سے لوگ افغانستان میں رہ رہے ہیں۔
جس کی سب سے بڑی مثال سابق صدر حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ، حکمت یار سمیت بہت سے لوگ اس وقت افغانستان میں رہائش پزیر ہیں اور انہیں کوئی مسلئہ نہیں۔ 400 کے قریب وزراء گورنرز جو باہر چلے گئے تھے واپس آچکے ہیں اگر ان کے لیے مسئلہ نہیں تو عام لوگوں کو کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کچھ لوگ یورپ نکلنے کے لیے بہانے تلاش کر رہے ہیں۔
طالبان حکومت خواتین کی تعلیم کے خلاف نہیں حق میں ہے
افغانستان کے قونصل جنرل کے مطابق افغانستان میں اس وقت امن آچکا ہے اور یہ ملک ایک طویل جنگ سے آزاد ہوا ہے اس لیے ہمیں نظام میں تبدیلی کے لیے کچھ وقت لگے گا۔ ظاہر سی بات ہے ہماری ایک اسلامی حکومت ہے اور ہم وہ اللہ اور اللہ کے رسول کا نظام چلانا چاہتے ہیں۔ ہم خواتین کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں، ہم خواتین کو تعلیم دلائیں گے لیکن جو نظام چل رہا تھا اسکے اندر اسلامی نظام کو مدنظر نہیں رکھا گیا تھا۔ جس کے خلاف ہم برسرپیکار بھی تھے، خواتین کی تعلیم کے حوالے سے ایک سسٹم بن جائیگا اور تعلیم بھی شروع ہو جائے گی۔
ڈالر اسمگلنگ روکنا پاکستان کی حکومت کا کام ہے اس میں ہمارا عمل دخل نہیں
اسمگلنگ ہر ملک میں ہوتی ہے، یہ جس ملک سے ہو رہی ہے اس ملک کو چاہیے وہ اس کا سدّباب کرے اگر ہمارے ملک سے ہو رہی ہے تو ہم پر لازم ہے کہ روکیں اور اگر پاکستان سے ہو رہی ہے تو حکومت پاکستان اسے بند کرے۔ پاکستان سے تو دبئی بھی لوگ ڈالر لیکر جاتے ہیں تو انہیں حکومت پکڑے اس میں ہمارا کیا عمل دخل ہے، یہاں سے جو ڈالر افغانستان جا رہا ہے تو وہ حکومت کو نہیں مل رہا وہ وہاں سے کہیں اور اسفل ہو جاتا ہے۔ جبکہ افغانستان سے ڈالر باہر جانے نہیں دیا جارہا ہے۔
افغانستان قرض لینے والا نہیں بلکہ دینے والا پر امن ملک ہے
عبد الجبار کا کہنا ہے کہ افغانستان پر امن ملک ہے اور اس پر کوئی قرض نہیں بلکہ اس وقت ہم قرض دیتے ہیں لیتے نہیں، افغانستان کے اندر معدنیات کی بھرمار ہے اور ہم اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ہمارے چین روس سمیت دیگر ممالک سے معاہدے ہو چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہماری کرنسی بہتر ہو رہی ہے۔
ہم پاکستان سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں پابندی میں پہل پاکستان کرتا ہے
ہم چاہتے ہیں ہمارے پاکستان سمیت تمام پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات ہوں تجارت پاکستان کی طرف سے بند ہوئی بارڈر پر لگنے والی پابندی بھی پاکستان کی طرف سے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ عوام کا آنا جانا اور تجارت کو ہم سیاست سے نہیں جوڑنا چاہتے، پاکستان اور افغان عوام کے دیرینہ تعلقات ہیں اور تجارت کی غرض سے آنا جانا ہے۔
یہاں ہونے والی تجارت دونوں ممالک کے فائدے میں ہے، 2 دن بھی تجارت بند ہو جائے تو تاجروں کا کروڑوں ڈالروں کا نقصان ہوتا ہے، ہمارے حکمرانوں کی غفلت اور کوتاہی کی سزا عوام کو نہیں ملنی چاہیے۔
جو غیر قانونی افغان ہیں ہم چاہتے وہ واپس افغانستان لوٹ جائیں
پاکستان نے عرصہ دراز سے افغانیوں کی مہمان نوازی کی ہے ہم کہتے ہیں کہ اب بھی صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے، ہم بھی یہ چاہتے ہیں کہ غیر قانونی افغانی واپس افغانستان لوٹ جائیں لیکن اس کے لیے کچھ وقت دیا جائے جو قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں انکو انکی مرضی پر چھوڑا جائے یہاں رہیں یا وہاں رہیں۔
یہاں یا بارڈر پر جو رقم لی جا رہی ہے وہ نہیں لینی چاہیے، اتنی عجلت میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے کو برداشت کرنا چاہیے اور بہتر تعلقات کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔
آئندہ دس برسوں میں افغانستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوگا
پاکستان اور افغانستان کی آپس میں دو طرفہ تجارت ہے اور اسکی حفاظت اس لیے بھی ضروری ہے کہ کوئی دشمن فائدہ نا اٹھا سکے، آئندہ 10 برسوں میں افغانستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوگا۔ ہم نے بہت کم وقت میں ترقی کی ہے۔