چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی ) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جس دن کوئی بیرونی دباؤ لیا تو اس دن سے اپنے عہدے پر نہیں رہوں گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل سے متعلق ایک بار فیصلہ ہو جائے تو اس کے بعد از خود اختیارات سے متعلق مقدمات کی سماعت کا آغاز کروں گا۔
مزید پڑھیں
چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جمعرات کو سپریم کورٹ میں صحافیوں سے ملاقات کی۔ ملاقات میں صحافیوں کو پیشہ ورانہ امور میں مشکلات پر بات چیف کی گئی۔ ذرائع کے مطابق چیف جسٹس نے سپریم کورٹ میں 2 ججز کی خالی نشستیں پوری کرنے کے لیے جوڈیشل کمیشن کے ممبران کو 28 خطوط لکھے ہیں اور ان سے تجاویز مانگی ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے مقدمے کا فیصلہ ہو جائے تو اس کے بعد بڑے اور ازخود اختیارات سے متعلق مقدمات کی سماعت کروں گا۔
انہوں نے بتایا کہ بطورممبرجوڈیشل کمیشن، ججز کی تعیناتی اور ان کی سنیارٹی کے حوالے سے میں نے جو اعتراضات اٹھائے تھے، اس حوالے سے 28 خطوط لکھے۔
سپریم کورٹ کو ہاؤسنگ سوسائٹی جیسے معاملات میں نہیں پڑنا چاہیے، سی جے پی
سپریم کورٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کے بارے میں ایک سوال پر چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ’ میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ کو اس طرح کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہیے، تاہم فی الوقت اس حوالے سے ابھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچا‘۔
صحافیوں کو عدالتی معاملات کی درست رپورٹنگ کرنی چاہیے
اپنی گفتگو کے دوران چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کی کوریج کرنے والے صحافیوں پر زور دیا کہ وہ عدالتی معاملات کی درست رپورٹنگ کیا کریں، اس حوالے سے صحافیوں کے احتساب سے متعلق کوئی نظام بھی ہونا چاہیے۔
پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) میں پیش آنے والے واقعے جس کے اسکرپٹ میں غلطی سے فل کورٹ کو ’فول کورٹ‘ لکھ دیا گیا تھا اور چار صحافیوں کو ملازمت سے معطل کر دیا گیا تھا، کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ جب انہیں اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے فوری طور پر اپنے پرسنل سٹاف آفیسر کو ہدایت کی۔
پی ٹی وی کے صحافیوں کی تھوڑی سرزنش ہوتی، معطلی کا حامی نہیں ہوں، سی جے پی
جس پر پرسنل سٹاف آفیسر ڈاکٹر مشتاق نے بتایا کہ انہوں نے منیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) پی ٹی وی سے بات کی تھی کہ ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جانی چاہییے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ’یہ ٹھیک ہے کہ تھوڑی بہت سرزنش ہونی چاہییے لیکن میں معطلی کے حق میں نہیں ہوں‘۔
صحافیوں نے کوریج کے دوران پیش آنے والے مسائل کے بارے میں چیف جسٹس کو آگاہ کیا اور چیف جسٹس نے ان کے مسائل کے حل کی یقین دہانی کروائی۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے پرسنل سٹاف آفیسر سے پوچھا کہ وہ یہ معلوم کر کے بتائیں کہ کیا دنیا بھر میں سابق چیف جسٹس صاحبان کی تصویریں اسی طرح سپریم کورٹ میں آویزاں کی جاتی ہیں جیسے ہمارے ہاں کی گئی ہیں؟
انہوں نے بتایا کہ کچھ جج صاحبان ایسے تھے جیسے جسٹس دراب پٹیل جو چیف جسٹس بن سکتے تھے لیکن انہوں نے پرووژنل کنسٹیٹوشنل آرڈر (پی سی او) کے تحت حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔
’چیف جسٹس صاحبان کی الٹی تصویر مذاقاً کہا، کہیں میری تصویر یہ الٹی نہ لگوا دیں‘،سی جے پی
ایسے چیف جسٹس صاحبان کی تصویریں سپریم کورٹ میں لگنی چاہییں۔ ایک صحافی نے سوال پوچھا کہ آیا کچھ چیف جسٹس صاحبان کی تصویریں الٹی نہیں لگنی چاہییں تو اس پر چیف جسٹس نے خوشگوار انداز میں کہا کہ ’میں نے مزاقاً کہا، کہیں آپ ’میری تصویر ہی الٹی نہ لگوا دیں‘۔