افغان پناہ گزینوں کو وطن واپس بھیجنے کے سفارتی اثرات کیا ہوں گے؟

ہفتہ 7 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

2021 میں افغان حکومت پر قبضے کے بعد سے طالبان حکومت کو فی الحال عالمی سطح پر قانونی حکومت تسلیم نہیں کیا گیا لیکن پاکستان کے ساتھ اس ملک اور اس کے عوام کے تعلقات کی تاریخی نوعیت کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کی طالبان حکومت کے درمیان غیر رسمی یا ڈیفیکٹو سفارتی تعلقات ہیں۔

نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے مطابق اس وقت ملک میں افغان پناہ گزینوں کی تعداد 44 لاکھ جبکہ کسی بھی قسم کی شناختی دستاویزات کے بغیر مقیم پناہ گزینوں کی تعداد 17 لاکھ ہے۔

 پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم حکومت پاکستان سے اپیل کر رہے ہیں کہ ان مہاجرین کو افغانستان واپس نہ بھیجا جائے کیونکہ وہاں ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ لیکن اب جبکہ پاکستان حکومت نے ملک غیر قانونی طور پر 17 لاکھ افغان مہاجرین کو واپس بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے تو اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ پاکستان نے نہ صرف افغان مہاجرین بلکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر بھی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

حکومت پاکستان کے اس فیصلے کے اثرات جاننے کے لئے ہم نے سفارتی ماہرین سے ان کی آراء جاننے کی کوشش کی ہے۔

اس وقت طالبان کو پاکستان کی ضرورت ہے انہیں خیال کرنا چاہیے، علی سرور نقوی

سابق سفارتکار اور سینٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹجک اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی سرور نقوی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت طالبان کو پاکستان کی ضرورت ہے اور انہیں یہ احساس ہونا چاہیے کہ دنیا میں اس وقت کوئی بھی ملک ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا۔

سابق سفارتکار اور سینٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹجک اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی سرور نقوی

سب سے اچھی چیز یہ ہونے جا رہی ہے کہ پاکستان نے صرف غیر قانونی پناہ گزینوں کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ قانونی طور پر پناہ گزینوں کے بارے میں ایسا فیصلہ نہیں کیا گیا۔

علی سرور نقوی نے کہا کہ فی الحال طالبان کو پاکستان کی ضرورت ہے لیکن وہ جو جی چاہے کرتے ہیں۔ دہشت گردی کی کارروائیاں، اسمگلنگ اور منشیات کی تجارت میں یہ لوگ ملوث ہیں۔

یہ لوگ چاہتے ہیں ان کو کچھ نہ پوچھا جائے

علی سرور نقوی نے کہا کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان سے ان کی غیر قانونی سرگرمیوں کے بارے میں نہ پوچھا جائے، جبکہ ایسا تو ہم اپنے شہریوں کے بارے میں بھی نہیں کر سکتے۔

پاکستان اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے یو این ایچ سی آر کا رکن ہے لیکن اس ادارے کو اب پاکستان کے مسائل کو دیکھنا پڑے گا۔

یہ ایک تباہ کن فیصلہ ہے، سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد

 سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے اپنے ہمسایوں انڈیا اور ایران کے ساتھ تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں۔ اب افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کشیدہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ اپنے لیے ایک نیا محاذ کھول رہے ہیں۔

سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد

شمشاد احمد نے کہا کہ جن مسائل کی بنیاد پر یہ فیصلہ لیا گیا ان کا تعلق ہمارے حکومتی محکموں کی بری کارکردگی سے ہے۔ ہمارے سرحدی علاقوں سے جس طرح سے لوگ آتے جاتے ہیں اور جس طرح اسمگلنگ ہوتی ہے اس ناکامی کے ذمے دار ہمارے ادارے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے پاکستان نے افغانستان پر روس کے حملے کے وقت اس جنگ میں حصہ لیا اور پھر جنرل مشرف نے نائن الیون کے بعد پاکستان کو امریکی جنگ میں جھونک دیا۔ لیکن ہم نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ دنیا بھر میں جس طرح سے پناہ گزینوں کو کیمپوں میں رکھا جاتا ہے اس طرح سے نہیں رکھا۔

شمشاد احمد نے کہا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ آپ 30 دن کے اندر افغان مہاجرین کو ملک سے نکل جانے کی ڈیڈلائن دے دیں۔

شمشاد احمد نے کہا کہ اس طرح کے فیصلے نگران حکومت کا مینڈیٹ نہیں بلکہ منتخب حکومت کو اس طرح کے فیصلے کرنے چاہییں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp