ہندو لڑکے کیوں محبت نہیں کرتے؟

اتوار 8 اکتوبر 2023
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہر طرف خوف ہے کہ کب کس کی بچی اغوا ہو جائے اسی سبب بچیوں کو اسکولوں سے نکال کر گھر بٹھا لیا گیا ہے۔ خوف صرف مسلط نہیں بلکہ مارکیٹ کیا گیا ہے۔

ِمٹھی کے ایک پسماندہ گاؤں میں مٹی سے لیپے ایک کمرے کے گھر میں چارپائی پر بیٹھی مینا کماری اپنے میلے کچیلے دوپٹّے سے آنکھ سے رواں آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔ بات کرتے ہوئے بار بار اس کے گلے میں درد کا ایک گولا سا پھنس جاتا، تو اس کی درد بھری روداد سننے والوں کو بھی گلے میں ایک پھندا سا لگتا محسوس ہوتا، جسے سب گلا کھنگار کر صاف کرنے کی اپنی سی سعی کرتے۔

کمرے میں سوائے بوسیدہ چارپائی جس کی بان بوڑھے برگد کی داڑھی کی مانند جگہ جگہ سے لٹک رہی تھی، یہاں صرف ایک تپائی پر 2 گلاس دھرے تھے۔

چارپائی پر اس کے ساتھ اس کا 2 سال کا بچہ بیٹھا تھا اور دوسرا اس کے پیٹ میں پل رہا تھا جو چند ہفتوں کے بعد اس بے حس دُنیا میں آنے کو تھا۔ مینا جس دن اغوا ہوئی اس کی عمر 13 سال تھی۔ اس دوران 10 ماہ میں وہ کوئی 6 مختلف آدمیوں کی ہوس کا نشانہ بنی۔ ہر مرد اس کے ساتھ زیادتی کرنے سے پہلے کہتا کہ ہمارا نکاح ہوا ہے۔

بقول مینا کے ، اس وقت کوئی مولوی ہوتا نہ کوئی نکاح پڑھایا جاتا تھا۔ بس مجھے بنا سنوار کر مختلف مردوں کے حوالے کر دیا جاتا تھا۔ ایک 2 ماہ میں جب ایک مرد کا دل اُوب جاتا تو پھر وہی کہانی دہرائی جاتی۔

10ماہ میں جب ان گِدھوں نے مینا کا ماس نوچ کھایا اور جب وہ حاملہ ہوگئی تو ایک رات اسے اس کے علاقے کے آس پاس پھینک دیا گیا۔

مینا یہ تو نہیں جانتی کہ پیٹ میں پلنے والا بچہ کس کا ہے؟ ہاں البتہ وہ یہ ضرور جانتی ہے کہ ’ماں وہی ہے‘۔ اس کے پھولے پیٹ کو دیکھ کر دل سے ایک آہ نکلی کہ یارب کوکھ میں بیٹی نہ ہو۔

تھرپارکر کے ایک محلے کی گلی میں بچے  گُلّی ڈنڈا کھیلتے ہوئے آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں کچھ ہی سمے، ان بچوں کے شوروغل میں ایک اور بچی کی چیخیں اور آہ و بکا بھی شامل ہو جاتی ہے۔ سارے بچے کھیل چھوڑ کر محلے کے واحد پکے مکان جس کی دیواریں فصیلوں کی مانند اونچی ہیں، کی جانب دیکھنے لگتے ہیں۔

ایک کم سن بچی رنکل کماری چھت کی دیوار سے اپنا منہ باہر نکال کر زور زور سے ’مدد کرو میری ، مجھے میرے گھر جانے دو، بھگوان کا واسطہ مجھے چھوڑ دو میں مر جاؤں گی ‘ چلا رہی تھی۔

ایک بچے نے موبائل سے ویڈیو بنا کر اس منظر کو قید کر لیا۔ بچوں کی نظریں وہاں ہی جمی ہیں لیکن اب وہاں کوئی چلاتا ہوا چہرہ ہے نہ ہی چیخوں کی آوازیں ۔ ثبوت کے طور پر ویڈیو بھی رنکل کماری کو بازیاب نہ کروا سکی ۔ پوری آبادی کو آج بھی سانپ سونگھا ہوا ہے ۔

حیدرآباد کی ایک کچی آبادی کی ’وائیتو‘ 4 بچوں کی ماں ، دھان پان سے بدن پر گوشت نام کی شے نہ ہونے کے برابر ہے۔۔۔لیکن حوصلہ و ہمت کسی چٹان سے کم نہیں کہ آج بھی اپنے اغواکار اور زیادتی کرنے والے رکشا ڈرائیور کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہے۔

وہی شخص جس کے رکشا میں بیٹھ کر وہ روز اپنے محلے کی دوسری عورتوں کے ہمراہ کام پر جایا کرتی تھی ۔ لیکن جیسا کہ عام طور پر عورت کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ بھاگ کر گئی ہوگی، وائیتو کے لیے بھی یہی عذر پیش کیا گیا جس میں پولیس کا کردار نہایت ہی مکروہ رہا۔ کیونکہ ایک غریب ہندو عورت کی نسبت ایک مسلمان مرد کو بچانا زیادہ افضل عمل ہے۔

وائیتو کے گھر کی دہلیز پر لٹکا پردہ اس کے دوپٹّے کی مانند اُڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں مینا کی طرح آنسو نہیں ایک عزم ہے، بردباری ہے ۔ غالباً عمر اور تجربہ روّیوں میں فرق پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ بار بار ایک ہی جملہ دہراتی ہے کہ ایسے سماج کے ناسوروں کو سزا ہونی چاہئے ۔۔۔۔ضرور ہونی چاہیے۔

وہ جب اغوا ہوئی تو تقریباً 2 ڈھائی ماہ اس کے چاروں بچے اپنی ماں کے لیے بلکتے رہے، اس کا شوہر در در جا کر انصاف اور اپنی بیوی کی بازیابی کے لیے مِنتیں کرتا رہا۔ لیکن اس ملک میں شنوائی کم ہی لوگوں کا مقدر ہوتی ہے۔ یہ تو ہندو بھی، غریب بھی اور پھر ایک عورت بھی، ایسے لوگوں کا اغوا۔۔۔ کس کے پاس ہے وقت ان جیسے لوگوں کی فریاد سننے؟

لیکن سلام ہے اس کمیونٹی کی عورتوں کو جنہوں نے مل کر اپنی وائیتو کو اس چُنگل سے چھڑوانے کے لیے کئی دن احتجاج کیا اور ڈنڈے لے کر اس اغوا کار کے گھر کا گھیراؤ تب تک جاری رکھا جب تک پولیس کو اسے ہر حال میں بازیاب نہ کرانا پڑ گیا۔

یہ مختلف عمر کی 3 ہندو عورتوں کی سچی روداد ہے۔ نہ جانے اور کتنی ایسی عورتیں ہوں گی جن کی کہانی منظر عام پر نہ آ سکی یا وہ رنکل کماری کی طرح اندر ہی کہیں مدفون ہو گئیں ہوں۔

لیکن ان اعدادوشمار پر بھی ایک نظر کرم تو بنتی ہے

2019 میں تقریباً 41 ہندو لڑکیوں کو کراچی، حیدرآباد، ٹنڈو اللہ یار، ٹنڈو محمد خان، جام پتافی، بدین، میرپور خاص، سانگھڑ، سکھر، شہدادکوٹ، گھوٹکی ، ٹھٹہ، خیرپور، دادو اور جام شورو اضلاع سے اغوا کیا گیا تھا۔

چلیے مان لیتے ہیں کہ صرف یہی 3 عورتیں اس زیادتی کا شکار ہوئی ہوں، باقی سارا فسانہ ہی ہو۔  تو سوال یہ ہے کہ کیا ’یہ چند‘ عورتوں کے ساتھ ہونے والا ظلم کوئی معنی نہیں رکھتا؟

سوال یہ نہیں کہ آیا 3 غریب ہندو عورتیں تھیں یا 30 ۔۔۔۔ سوال یہ بھی نہیں کہ اغوا ہوئیں، ان کا ریپ ہوا، جبری شادی ہوئی، بہلا پھسلا کر بھگایا یا سب محبت کا شاخسانہ تھا۔

کلیشے اور واہیات ہی سہی، پر کہا جاتا ہے کہ ’محبت اور جنگ میں سب جائز ہے‘ تو سوال صرف یہ ہے کہ صرف ہندو عورت ہی کیوں؟ ہندو مردوں کو محبت کیوں نہیں ہوتی؟

اقلیت کے لیے قانون بنانے کی ضرورت اس ملک میں پڑتی ہے جہاں انہیں اپنے حقوق نہیں ملتے ۔۔۔آپ بے شک سینکڑوں قوانین بنا دیں اگر ان پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا تو سب کارروائیاں بے مقصد رہیں گی۔

اوپر سے نیچے تک ایک ہی ذہنیت کے افراد انصاف مہیا کرنے بیٹھے ہوں گے تو ہمارا پِدر شاہی معاشرہ ثواب کمانے کے نام پر اپنی ہوس پوری کرتا رہے گا۔ یاد رکھیے’کفر کے ساتھ معاشرے نہیں ٹوٹتے، ناانصافی کی وجہ سے معاشرہ تتر بتر ہو جاتا ہے‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp