انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا اختر حیات گنڈا پور نے واضح کیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں غیر قانونی رہنے والے غیر ملکیوں کے خلاف کسی قسم کا کوئی کریک ڈاؤن شروع نہیں ہوا نہ ابھی تک غیر قانونی قیام پر کسی افغان باشندے کو گرفتار کیا گیا۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا اختر حیات گنڈاپور نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے ملک میں مقیم غیر ملکی باشندوں کے لئے ڈیڈلائن میں وقت باقی ہے، ابھی تک کارروائی کے لیے کوئی ہدایت نہیں ملی ہے۔
’خیبر پختونخوا میں پولیس افغان مہاجرین کے خلاف کوئی کارروائی یا کریک ڈاؤن نہیں کر رہی ہے، ابھی تک ایک بندہ بھی گرفتار نہیں کیا ہے۔‘
آئی جی خیبر پختونخوا نے ان الزامات کی بھی تردید کی کہ پولیس افغان مہاجرین کو تنگ کرکے پیسے لے رہی ہے۔ بتایا کہ صوبے سے کہیں سے بھی ایک بھی بندے کو غیر قانونی رہائش پر گرفتار نہیں کیا ہے، غیر قانونی باشندے رضاکارانہ طور پر واپس اپنے ملک کو جا سکتے ہیں۔
رضاکارانہ واپسی میں تیزی آئی ہے
دوسری جانب حکومت کی جانب سے ڈیڈی لائن دیے جانے کے بعد افغان مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی میں تیزی دیکھنی میں آئی ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق گزشتہ روز اتوار کے دن طورخم بارڈر پر غیر قانونی رہائش پذیر 50 افغان خاندانوں کی وطن واپس ہوئی۔
50 خاندانوں پر مشتمل 20 ٹرکوں کا قافلہ طورخم بارڈر سے کلیئرنس کے بعد افغانستان داخل ہو گیا ہے، مزکورہ افغان خاندان پنجاب اور خیبر پختونخوا سے افغانستان گئے ہیں، حکومت پاکستان کے اعلان کے بعد رضاکارانہ طور پر کل 200 افغان خاندان واپس جا چکے ہیں۔
افغان باشندوں کے اثاثہ جات کے متعلق رپورٹ تیار
حکومتی ذرائع کے مطابق افغان باشندوں کے اثاثوں کے حوالے سے خیبر پختونخوا کے 7 اضلاع میں سروے مکمل کر لیا گیا ہے۔ سروے کے مطابق افغان باشندوں کے کاروبار میں پشاور پہلے نمبر، خیبر دوسرے ، تیسرے نمبر پر مہمند ، چوتھے پر مردان ، تخت بھائی پانچویں، نوشہرہ چھٹے، کوہاٹ ساتویں اس بعد مالاکنڈ ہے۔
سب سے زیادہ اثاثہ جات افغان مہاجرین کے پشاور میں ہیں، رپورٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں، ایف بی آر، محکمہ مال، محکمہ ایکسائز سمیت دیگر اداروں نے مل کر تیار کی ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ افغان باشندوں کے سہولت کاروں کا ڈیٹا بھی جمع کیا جا رہا ہے، پشاور میں مقیم افغان تاجروں کی تفصیلات اور ڈیٹا تیار کر لیا گیا ہے جبکہ یکم نومبر سے افغان باشندوں کے خلاف کارروائی شروع کی جائے گی۔