کراچی میں ناردرن بائی پاس سے ملحقہ افغان مہاجر کیمپ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہزاروں افغان تارکین وطن کی پناہ گاہ ہے جہاں ان کے گھر موجود ہیں۔
افغان مہاجر کیمپ کہاں ہے؟
سہراب گوٹھ سے ایم 9 موٹر وے پر چند کلو میٹر سفر کے بعد بائیں جانب ناردرن بائی پاس کے ساتھ ہی آپ کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کسی اور خطے میں آپ داخل ہو رہے ہوں۔ اس کیمپ میں کئی پاکستانی پرچم لگے ہیں جو انہی افغانوں نے لگائے ہیں۔
پاکستان میں افغانستان کے رنگ
افغان مہاجر کیمپ میں داخل ہونے کے بعد روایتی افغانی تندور اور دکانیں دکھائی دیتی ہیں۔ تھوڑا آگے جاتے ہی ایک مویشی منڈی ہے جہاں بکروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔
’یہ تو کام کرنے والے لوگ ہیں انہیں باہر جاتے ہی پکڑ لیا جاتا ہے‘
یہاں کے مقامی حاجی منظور کہتے ہیں کہ ہم یہاں صدیوں سے آباد ہیں اور ان افغانوں کے آنے سے ہمارے گھر کا چولہا جلنے لگا ہے لیکن اب سننے میں آرہا ہے کہ انہیں نکالا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانوں کو بیدخل کیے جانے کے اعلان کے بعد سے ان کا کاروبار بھی متاثر ہو رہا ہے کیوں کہ یہ لوگ اب بکریاں خریدنے اور بیچنے نہیں آرہے جس کی وجہ گرفتار کرلیے جانے کا ڈر ہے۔
مہاجر کیمپ کا سنہ 2006 میں بننے والا اسکول
افغان مہاجر کیمپ کے وسط میں ایک اسکول بنایا گیا ہے جس کی دیوار پر عربی، اردو، انگریزی، پشتو اور فارسی میں آیات، شاعری اور اقوال لکھے گئے ہیں۔ یہ اسکول افغانستان کے تعلیمی بورڈ سے منسلک ہے۔
اگر ہم (افغان) چلے گئے تو یہاں کا کچرا کون صاف کرے گا؟
افغان شہری پاکستان سے کیوں نہیں جانا چاہتے اس کی وہ بہت سی وجوہات بیان کرتے ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ وہ تو یہاں رجسٹرڈ ہیں اور ان کی تو پیدائش ہی یہیں ہوئی ہے۔ کچھ تو یہ کہتے ہیں کہ ’ہم چلے گئے تو شہر کا کچرا کون اٹھائے گا‘؟
مہاجر کیمپ کی مارکیٹ
آبادی کی مارکیٹ میں بچوں کی بڑی تعداد گھومتی دکھائی دیتی ہے اور بزرگ آپس میں بیٹھے گپ شپ لگاتے ہیں۔ اس مارکیٹ میں سب کچھ مل جاتا ہے اور وہ کباڑ جو کچرا چنتے چنتے جمع کیا گیا ہے اس میں سے کار آمد اشیا کو صاف کرکے سامنے رکھ دیا جاتا ہے تا کہ خریدار کو اپنے کام کی چیز مل سکے۔
یہ مہاجر کام کہاں کرتے ہیں؟
ان افغانوں کے لیے کراچی ایک جنت ہے اور ملک بدری کے احکامات سے قبل یہ روز صبح اس مہاجر کیمپ سے کراچی کے لیے نکلا کرتے تھے اور رات دیر تک واپس آیا کرتے تھے لیکن اب گرفتاری کے خوف سے یہ ممکن نہیں رہا۔
یہاں آباد افغان شہری کراچی میں کباڑ، لنڈا، ریڑھی لگانے والے یا کچرا چننے جیسے کاموں سے منسلک ہیں۔ یہ اپنا روایتی تندوری نان اور پکوان کھاتے ہیں۔ یہاں جگہ جگہ لکڑی کے ڈھیر اس لیے دکھائی دیتے ہیں کیوں کہ یہاں گیس کی سہولت موجود نہیں۔
افغانوں کا الزام اور درخواست
افغان شہری کہتے ہیں کہ پولیس قانونی و غیر قانونی افغانوں کو ایک ہی نظر سے دیکھ رہی ہے جس کے پاس پیسہ ہے وہ تو بچ جاتا ہے اور جس کے پاس نہیں وہ قانونی ہی کیوں نہ ہو نہیں چھوڑا جا رہا۔ ان افغانوں کا مطالبہ ہے کہ اگر نکالنا ہی ہے تو بیدخلی کی مدت بڑھا دی جائے تا کہ وہ اپنا کام اور سامان سمیٹ سکیں۔