ثمینہ پانچویں جماعت کی طالبہ تھیں جب 8 اکتوبر 2005 کی صبح ہولناک زلزلے کی صورت میں آزاد کشمیر پر قیامت ٹوٹی۔ مظفرآباد کے نواحی گاؤں ڈنہ گن چھتر سے تعلق رکھنے والی ثمینہ نے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے تو اپنے سوتے ہوئے والد کو اٹھانے گھر کے اندر گئیں۔
اتنی دیر میں کچے مکان کی چھت گر گئی اور وہ ملبے تلے دب گئیں۔ انہوں نے بہت آوازیں دیں مگر مدد کو آنے والا کوئی نہیں تھا۔ کافی دیر بعد ان کے والد نے اپنے ہاتھوں سے ہی ملبہ ہٹانا شروع کیا، اس کوشش میں ان کے ہاتھوں کی کھال اتر گئی مگر انہوں نے کوشش جاری رکھی۔ آخر کار وہ ملبے کے نیچے دبی ثمینہ کو نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔
ثمینہ کی ریڑھ کی ہڈی پر ضرب آئی تھی۔ انہیں علاج کے لیے راولپنڈی لے جایا گیا لیکن کچھ عرصے بعد انہیں علم ہوا کہ اب وہ ساری عمرچل نہیں سکیں گی۔ اس سفاک حقیقت نے جیسے ان کی زندگی یک لخت ختم کرکے رکھ دی۔
2 سال تک وہ پر امید رہیں کہ علاج جاری ہے اور شاید وہ ٹھیک ہو جائیں۔ مگر رفتہ رفتہ ان کی امیدوں کے تمام چراغ بجھ گئے لیکن ثمینہ نے ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے بھرپور زندگی گزارنے کا تہیہ کیا اور والد کی وفات کے بعد اکیلے رہ جانے والے بھائی کا دست و بازو بننے کی ٹھانی۔
ثمینہ کی جرات آموز داستان ایم ڈی مغل کی اس ویڈیو رپورٹ میں!